فلٹر زدہ ڈیجیٹل زندگی


یہ ڈیجیٹل دور ہے یہاں گھر میں ٹینڈے اور آلو بینگن کھانے کے بعد فیس بک پر بتایا جاتا ہے کہ میں نے فرائیڈ رائس پران کیساتھ کھائے ہیں۔پلاسٹک کا ڈنر سیٹ یا سٹیل کے برتن میں کوئی تصویر لگانے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ہر دوسرے دن بہانے بہانے سے گھر کے لان (امیر رشتے داروں کے لان) کی تصویر لگانی ہے، پارکنگ میں کھڑی مہنگی گاڑی ساتھ سلفیاں بنانی ہیں کیونکہ جب تک امیری کا رعب نا ڈالا جائے کوئی عزت تو کرے گا نہیں۔ہم سادہ طرز زندگی چھوڑ چکے ہیں۔ اپنے ہم زبان سے اپنی زبان میں بات کرتے شرم محسوس ہوتی ہے۔ مادری و قومی زبان میں بات کی تو بھلا رعب کیسے ڈالا جائیگا کہ ہم نے یونیورسٹی سے ڈگری لی ہے۔ ڈگری بھلے 2 جی پی اے والی ہی کیوں نا ہو۔
آج دنیا ترقی کر چکی ہے، ایچ ڈی کیمرے اور بیوٹی فلٹرز کی بھرمار ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ میں خود کو حسین ترین ثابت کرنے کے لیے فلٹرز شدہ تصاویر بنوانے کا شوق زور پکڑرہا ہے۔
لیکن سوچنے کہ بات یہ ہے کہ کہیں اس شوق میں ہم اپنے ہی ساتھ زیادتی تو نہیں کر رہے؟ ہم اپنی پہچان مٹا رہے ہیں۔ اتنا بھی مصنوعی زندگی کو کیا جینا کہ خود کو خود کے ہاتھوں ختم کیا جائے۔دورِحاضرہ میں لوگ اتنا فلٹرز لگاتے ہیں، اتنا زیادہ کہ اپنی پہچان مٹا دیتے ہیں۔ 
ایک وقت تھا جب لوگ بیوٹی ایپس ڈاون لوڈ کرتے تھے لیکن اْس وقت بھی زمین آسمان کا فرق نہیں ہوتا تھا۔ موبائل پر نارمل موڈ ہوتاتھا۔پہلے پہل کے لوگ جیسے ہوتے تھے ویسی ہی تصاویر بنوانا پسند کرتے تھے۔وہ اس مصنوعی زندگی سے دْور تھے۔ کیونکہ وہ لوگ خود سے محبت کرتے تھے۔ اپنی زبان بولنے والے اور اپنے کلچر،رسم و رواج کو پسند کرنے والے تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ جدید طرزِزندگی کو اپنانا غلط ہے بلکہ اپنی خود کی پہچان کو مٹانا غلط ہے۔
آج شدت سے ضرورت ہے کہ اس دو چارپائیوں جتنے لان کی بجائے، زیادہ چارپائیوں والا پرانی طرز کا صحن ہو۔تازہ اور ٹھنڈی ہوا آ رہی ہو۔جہاں شام میں بیٹھ کر گپ شپ کی جائے۔ اوربچے نانا نانی /دادادادی سے کہانیاں سْنیں۔ ایسا ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہر کوئی مشترکہ نظامِ زندگی چھوڑ کر الگ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہم لوگوں کے سامنے اپنی عزت بنانے کے چکر میں مصنوعی زندگی جیے جارہے ہیں۔ جبکہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری خود کی کوئی زندگی ہے ایک الگ پہچان ہے۔
شمس تبریز کہتے ہیں '' محبت کے چالیس اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ، اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تم سے مختلف سلوک کریں تو تمھیں پہلے اپنے سے روا سلوک کو بدلنا ہو گا۔جب تم خود سے پورے خلوص سے محبت نہیں کرو گے تو کوئی صورت نہیں کہ تم سے محبت کی جا سکے۔ تم دوسروں کو اپنی بے عزتی کا الزام کیسے دے سکتے ہو جب تم خود کی ہی عزت نہیں کرتے نا ہی خود سے محبت کرتے ہو۔''
ہم بس ایک مصنوعی زندگی جیئے جاتے ہیں۔ اس لئے مصنوعی طرز چھوڑ کراپنی زندگی خوبصورتی سے جیو۔ایسے جیو جیسے وہ ہے نہ کہ فلٹر ذدہ ڈیجیٹل زندگی،صر ف دکھاؤ ے والی زندگی۔خود سے محبت کریں جئیں اور جینے دیں۔زندگی جتنی سادہ ہو گی اتنی پرْکشش ہو جائیگی۔

Daily Program

Livesteam thumbnail