عادت انسان کی پہچان

کسی زمانے میں ایک بادشاہ نے ایک قیدی کو کسی وجہ سے پھانسی کا حکم دیا۔جب قیدی کو قید خانے میں لایا گیا تو مرنے سے پہلے اْس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ قیدی نے کہا میں کیونکہ ایک اچھے گھرانے سے ہوں لہٰذا مجھے اعلیٰ نسلی گھوڑوں سے پھانسی لگایا جائے۔(اْس زمانے میں پھانسی کے تخت پر چڑھا کر گھوڑوں سے بندھ کر گھوڑوں کو دوڑیا جاتا تھا اس طرح پھانسی کی سزا ہوتی تھی)خیر گھوڑوں کو لایا گیا تو قیدی بول اْٹھا: اِن میں ایک تو نسلی ہے پر ایک نسلی نہیں ہے لہٰذا میری آخری خواہش مکمل نہیں ہوئی۔
بادشاہ نے گھوڑوں کے مالک کو بلوایا اور پوچھا:کیا یہ بات سچ ہے۔ گھوڑوں کے مالک نے جواب دیا: ہاں جی ایک اصلی نسل کا لیکن دوسرا نہیں ہے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر قیدی سے پوچھا: تمہیں کیسے یہ بات پتہ چلی کہ ایک گھوڑا نسلی ہے اور ایک نسلی نہیں؟
قیدی نے کہا: جو نسلی ہے وہ بڑے آرام سے کھڑا تھا جبکہ جو نسلی نہیں تھا وہ کبھی اِدھر ٹانگ مار،کبھی منہ پھیرتا، کبھی اْچھلتا،کبھی بیٹھ جاتا۔ جس سے مجھے علم ہوا۔بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ سے بڑا متاثر ہوا اور قیدی کی پھانسی منسوخ کر کے اپنے وزیر سے کہا اس کی ایک روٹی میں اضافہ کر دیا جائے۔
کچھ دن بعد بادشاہ کے دربار میں ایک سنار دو ہیرے لے کر حاضر ہوا اور بادشاہ سے کہا:ا گر آپ کی رعایا میں سے کوئی یہ بتا دے کہ ان میں کون سا ہیرا اصلی اور کون سا نقلی ہے تو میں آپ کو اصلی ہیرا انعام میں دے دوں گا۔
بہت سے لوگوں سے پوچھا گیا مگر کوئی مکمل جانچ نہ کر سکا۔اچانک بادشاہ کے دماغ میں اْس قیدی کا خیال آیا۔ بادشاہ نے اْس کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ سپاہی قید خانے میں سے قیدی کو لے کر حاضر ہوئے۔ قیدی کو ہیرے جانچ پڑتال کے لیے دئیے گئے۔ قیدی نے کچھ ہی لمحوں میں بتا دیا کہ ایک اصلی اور دوسرا نقلی ہے بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا؟
قیدی نے کہا کہ اصلی ہیرا رگڑنے سے کبھی گرم نہیں ہوتا جبکہ نقلی ہیرا رگڑنے سے گرم ہو جاتا ہے۔ سنار نے وہ ہیرا بادشاہ کو انعام میں دے دیا اور چلا گیا۔
بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ پر بہت زیادہ خوش ہوا اور سپاہیوں سے ایک اور روٹی بڑھانے کا حکم دیا۔دوپہر کو جب سپاہی قیدی کو ایک اور روٹی اضافے کے ساتھ دینے آئے تو قیدی نے کہا: بادشاہ بھی کسی لانگڑی کا بیٹا ہے۔ سپاہیوں نے قیدی کی یہ بات بادشاہ تک پہنچا دی۔ بادشاہ کو غصہ آیا اور سپاہیوں سے قیدی کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔جب قیدی سے اس بات کی وضاحت مانگی گئی توقیدی نے بادشاہ کو کہا اپنے خاندان کے بارے میں کسی سے پتہ کروا لیں اگر میں غلط ہوا تو جو دل چاہے سزا دے دینا۔
بادشاہ کی سلطنت میں سب سے ادھیڑ عمر شخص کو ڈھونڈا گیا اور اْس سے بادشاہ کے آباؤاجداد کے بارے میں پوچھا گیا۔ ادھیڑ عمر شخص نے بتایا: اس ملک میں اس بادشاہ سے پہلے اس کا باپ بادشاہ تھا لیکن وہ بادشاہ بننے سے پہلے لانگری(وہ شخص جس کا کام روٹی تقسیم کر نا ہو) تھا کیونکہ اس بادشاہ سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کا اپنا کوئی بیٹا نہ تھا۔ اس بادشاہ نے اعلان کیا تھا کوئی ایسا شخص جو میری رعایا کو بھوکا نہ مرنے دے تو آپ کا باپ لانگری تھا اْس دربارمیں حامی بھری کہ میں رعایا کو بھوک سے نہیں مرنے دوں گا۔ اس طرح بادشاہ سلامت آپ کے باپ کو سلطنت دی گئی تھی۔
بادشاہ نے قیدی سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں لانگری کا بیٹا ہوں؟
قیدی نے کہا کہ میں نے جتنی حکمت اور دانائی کی باتیں آپ کو بتائیں۔ آپ مجھے آزادی دینے یا ہیرے جواہرات دینے کی بجائے میری روٹی میں اضافہ کر دیتے تھے۔ اگرآپ کی جگہ پر کوئی خاندانی بادشاہ ہوتا وہ مجھے ضرور کوئی ہیرے جواہرات دیتا اور مجھے قید خانے سے رہا کرتا لیکن آپ کی عادت نے آپ کی نسل کا پتہ بتایاہے۔ 
اسی لئے کسی شاعر نے کمال کی بات کہی:
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
   بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail