زندگی کی رِیت۔۔ہار کے بعد جیت
کسی شخص کے گھر سے مہمان جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ایک دن میزبان کا بچہ آیا اور بار بار پوچھنے لگا، انکل آپ پھر کب آؤ گے؟ پھر کب آؤ گئے؟ مہمان پہلے تو مسکرا کر چپ ہو رہے۔ پھر بچے کے بار بار پوچھنے پر بولے بیٹا آ ئیں گے۔ بہت جلد آئیں گے۔ بچہ کہنے لگا لیکن انکل پہلے آپ جائیں تو سہی۔جائیں گے ہی نہیں تو آئیں گے کیسے؟
اس لطیفہ میں ایک حقیقت نظر آتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ زندگی میں بھی کسی چیز کو حاصل ہونا ہے تو پہلے اسے کھونا پڑتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کسی چھوٹے سے باکس میں سونے کی چوڑیاں کوآنا ہے تو پہلے اس میں رکھی چاندی کی چوڑیوں کو جانا پڑے گا تا کہ سونے کی چوڑیوں کے لئے جگہ بن سکے۔ چاندی کے جانے کو ہم محرومی نہ سمجھیں۔ بلکہ یہ جانیں کہ اس سے بہتر کوئی چیز یعنی سونا ہماری زندگی میں آنے والا ہے جس کے لئے قسمت جگہ بنا رہی ہے اور جسے ہمیں سمجھنا ہے۔
ایک مصنف نے اپنی کتاب بنام Solve for Happy میں بتایا ہے کہ ”آپ اس گلاس کونہیں بھر سکتے جو پہلے سے ہی بھرا ہوا ہے“۔ دراصل اکثر ہم خود کو صرف چاندی کے لائق ہی سمجھتے ہیں۔ چاندی مل جانے کو ہی زندگی کی کامیابی مان لیتے ہیں اور یہ کھو جائے تومایوس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ در حقیقت زندگی اسے چھین کر ہمیں عشرت کدے یعنیComfort Zone سے باہر نکالنا چاہتی ہے تاکہ ہم کئی گنا بہتر کامیابی حاصل کر سکیں۔ جیسے کسی مچھلی کو کوئی پرندہ تالاب سے اچک لے اور سمندر میں گرا دے۔ تالاب مچھلی کے لئے سب سے اہم چیز ہوتی ہے۔ اْس کا کھو جانا ایک بڑی کامیابی کو کھو دینا ہی ہوا۔ لیکن سمندر کی وسعتوں سے بہریاب ہونے کے بعد مچھلی تالاب کھونے کو اپنی زندگی کا سب سے اچھا واقعہ مانے گی۔
ایک اندازے کے مظابق دنیا کی 91 فیصد آبادی سیل فون رکھتی ہے۔ ان کی اکثریت انٹرنیٹ اور WhatsApp کا استعمال کرتی ہے۔ اور اس کئی ملین ڈالر واٹس ایپ کا مالکJan Koum ایک یتیم مہاجر تھا۔ جس کی زندگی سے کئی چھوٹی کامیابیاں رخصت ہوتی رہیں تا کہ ایک عظیم الشان کامیابی اْس کے سر کا تاج بن سکے۔ 24 فروری1976کو کیوم روس میں پیدا ہوئے۔ یہودی جان کیوم نے 16 سال کی عمر میں سیاسی حالات سے بچنے کیلئے اپنی ماں اور دادی کے ساتھ کیلیفورنیا، امریکہ ہجرت کی۔ جہان وہ سرکاری اعانت سے گزارہ کرنے لگے۔ والدکا بعد ازاں ان سے آ ملنے کا منصوبہ تھا مگر وہ ادھر نہ آسکے اور1997 میں یوکرین میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ کیوم کی ماں کچھ دن آیا کا کام کرتی رہی اور خود کیوم ایک کرانہ دوکان میں چھاڑو پونچا لگانے کا کام کرتا رہا۔2000 میں انکی والدہ بھی کینسر سے مقابلہ کرتے کرتے وفات پاگئی۔ لیکن 18 سال کی عمر تک کیوم نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی۔ وہ پرانی کتابوں کی دوکان سے میگزین خریدتے اور پڑھ کر واپس بیچ دیتے۔ 1997 میں انھوں نے San Jose State یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔چھ مہینہ بعد ہی انھیں Yahoo کمپنی میں معمولی ملازمت ملی۔
ایک دفعہ کمپنی میں ایک فوری مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مالک نے ڈانٹ کر انہیں بلایا۔ اس وقت وہ کلاس روم میں تھے۔ انھوں ملازمت کے لئے تعلیم منقطع کرنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی ممالک میں ڈگریاں صرف قابل لوگوں کو ہی ملتی ہیں۔ وہ قابلِ اعتبار بھی ہوتی ہیں اور اہم کامیابی شمار ہوتی ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے توایک اہم کامیابی اْن کی زندگی سے نکل گئی۔ اس کامیابی کے کھو جانے کے بعد بھی کیوم نہ تو مایوس ہوئے اور نہ ہی دل برداشتہ۔ بعد ازاں انھوں نے Yahooکمپنی بھی چھوڑ دی ا ور اپنی منزل تلاش کرتے ہے۔
اپنے قریبی دوست کے ساتھ انھوں نے فیس بک کمپنی میں انٹرویو دیا اور دونوں دوستوں کو انکار کردیا گیا۔لیکن چند سالوں بعد اسی فیس بک کمپنی نے انھیں کئی ملین ڈالر کے تجارتی معاہدہ کے لئے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اب یہ ایک الگ داستان ہے کہ کس طرح کیوم نے اپنے قریبی دوست ایکٹن کے ساتھ مل کرواٹس ایپ تیار کیا اور برسوں کی جدوجہد اور نشیب و فراز کے بعد اسے امریکہ کے بیس سب سے اہم ایپ کے مقام تک پہنچایا۔ بس اتنا جان لیجئے کہ 2014میں مشہور فوربس میگزین کے سروے کے مطابق وہ امریکہ کے 400 امیر ترین لوگوں میں 62ویں نمبر پر تھے اور ان کی دولت ساڑھے سات ملین ڈالرتھی۔ اسی سال فیس بک کمپنی نے ان کی واٹس ایپ کمپنی کو 19 ملین ڈالر میں خرید لیااور کیوم کو فیس بک کے بورڈ آف ڈایکیریکٹرس میں شامل کیا۔
اچھی ڈگری مل جانا، مشہور کمپنی میں ملازمت مل جانا وغیرہ اہم کامیابیوں میں شمار ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ سب کیوم کی زندگی سے جاتی رہیں۔ لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔اگر یہ کامیابیاں اْن کی زندگی سے نہ جاتیں تو آج وہ ارب پتی نہ ہوتے بلکہ صرف ایک خوشحال ملازم کی زندگی گزار رہے ہوتے۔
اشفاق احمدصاحب کہتے ہیں:”کہ اگر خدا نے وہ لے لیا جسے کھونے کا تم تصوربھی نہیں کر سکتے تھے تو یقیناوہ کچھ ایسا بھی دے گا جسے پانے کا تم نے سوچا بھی نہ ہوگا“۔اسی سلسے میں محترمہ بلقیس بیان کرتی ہیں: ”کہ ہم اپنے مالک کے کرشموں کوکبھی نہیں سمجھ سکتے۔ وہ بہت آزماتا ہے۔آخری حد تک لے جاتا ہے اور پھر ایک دم سے کچھ ایسا کر دیتا ہے کہ تمام زخم ایک ساتھ بھر جاتے ہیں۔پھر یاد ہی نہیں رہتا کہ تکلیف کیا تھی“۔
پس ہمیں یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ کسی کامیابی کا کھو جانا یا حاصل نہ ہونا، ناکامی نہیں ہے۔ یہ قدرت کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں زیادہ محنت کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جگانا چاہیئے نا ں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ماتم کرتے رہیں۔ کیونکہ بڑی کامیابیاں بڑی قربانیوں اور بڑی محرومیوں کے بعد ہی حاصل ہوتی ہیں۔ اس حقیقت کا شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا گیا:
زندگی کی یہی ریت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے