بچوں کی اصلاح مثبت انداز میں
ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بچوں کو بہت سی عادتیں پڑ جاتیں ہیں۔ان میں سے کچھ اچھی اور بعض بْری ہوتی ہیں۔انہیں بْری عادتوں کو اگر پیار سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ تبدیل ہو بھی جاتی ہیں۔بْری عادتوں کوپیار سے بدلا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ غصے یا ڈانٹ سے کام خراب ہوتا ہے، بہتری مشکل ہوتی ہے۔ایک بچہ ہارون تھا جس کو ربر کھانے کی عادت تھی۔وہ سکول میں اپنی کلاس میں بیٹھا ہواتھا کہ مِس حِنا نے پوچھا :ہارون یہ تم کیا کھا رہے ہو اور تمہارے ہاتھوں میں کیا ہے؟
تو اُس نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ اُن کے سامنے کر دئیے۔لیکن مِس حِنا اُس وقت تک دیکھ چکی تھی کہ اُس نے اپنا ربر نیچے پھینکا اور پھر بڑی ہوشیاری سے اُس پر اپنا پاؤں بھی رکھ دیا۔مِس حِنا گزشتہ کئی دنوں سے دیکھ رہی تھیں کہ ہارون چپکے سے ربر کھاتا ہے۔اگر کوئی دیکھتا تو وہ کام کرنا شروع کر دیتا۔مِس حِنا کواس کی یہ عادت بری لگتی تھی لیکن پھر بھی اُنہوں نے سوچا کہ اگراسے سب کے سامنے ٹوکا تو اُسے شرمندگی ہو گی اور پھر سب اُس کا مذاق بھی اُڑائیں گے۔اس لئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کہانی کے ذریعے ہارون کی اصلاح کریں گے۔”چلو بچو!اب کون سا پریڈ ہے“۔
مِس حِنانے کلاس میں جاتے ہی پوچھا تو سب بچوں نے مل کر جواب دیا۔”کہانی کا“آج میں جو کہانی آپ کو سنا رہی ہوں وہ ایک بہت ہی پیارے بچے عامر کی کہانی ہے جو ویسے تو بڑا پیارا تھا لیکن نہ جانے کب اور کیسے اُسے ربر کھانے کی خراب عادت لگ گئی تھی۔
”ارے،اتنا گندا بچہ۔“حماد نے کہا۔پھر ایک بچے نے کہا:”مِس کیا اُسے کھانا نہیں ملتا تھا جو وہ ربر کھاتا تھا“؟یہ سن کر سب بچے زور زور سے ہنسنے لگے لیکن ہارون سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
مِس حِنا بولیں:”خاموشی سے کہانی سنو ورنہ مزہ نہیں آئے گا“۔پھر اُنہوں نے دوبارہ کہانی سنانا شروع کی۔اُس کی امی اُسے روز سکول جاتے وقت ایک نیا ربر دیتی تھیں لیکن اسکول سے واپسی پر وہ ربر غائب ہوتا جب اُس کی امی پوچھتی کہ تمہارا ربر کہاں گیا تو وہ روز ایک نیا بہانہ بنا دیتا۔کبھی کہتا کھو گیا کبھی کہتا کسی بچے نے نکال لیا۔کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔کچھ دن تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اُس کی امی نے طے کیا کہ میں اس کا پتا لگا کر رہوں گی کہ عامر کا ربر جاتا کہاں ہے؟
ایک روز عامر کی امی سکول پہنچیں اور ہیڈ مسٹریس سے شکایت کی کہ میرے بچے کا ربر روز کلاس میں غائب ہو جاتا ہے کہیں کوئی بچہ اُس کا ربر تو نہیں نکال لیتا؟ہیڈ مسٹریس نے اُن سے کہا:”میں خود اس مسئلے کو حل کروں گی آپ بے فکر ہو جائیں۔اگر کوئی بچہ ایسی حرکت کرتا ہے تو میں اُسے سخت سزا دوں گی۔“
اُسی رات عامر کے پیٹ میں شدید درد ہوا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑ کر زور زور سے رونے لگا۔اُنہوں نے محسوس کیا کہ عامر کا پیٹ کچھ پھول گیا تھا۔یہ دیکھ کر عامر کے امی ابو پریشان ہوئے اور اُسے فوراً ہسپتال لے گئے۔جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کرنے کے بعد اُس کے امی ابو کو بتایا کہ اس کے پیٹ میں بہت سا ربر موجود ہیں جس کی وجہ سے درد ہو رہا ہے۔چونکہ ربر بناتے وقت بہت سے کیمیکل ملائے جاتے ہیں اس لئے عامر کے پیٹ میں انفیکشن ہو گیا ہے۔اتنا کہہ کر مِس حِنا رُکیں اور بچوں سے پوچھا۔”جانتے ہو پھر کیا ہوا؟“”کیا ہوامِس؟“بچوں نے ایک ساتھ پوچھا۔”عامر کے پیٹ کا آپریشن کیا گیا تو اس کے پیٹ میں سے بہت سا ربر نکالا گیا۔عامر کو تکلیف توبہت ہوئی لیکن پھر اُس نے توبہ کر لی کہ آئندہ کبھی ربر نہیں کھاؤں گا۔ہارون خاموشی سے کہانی سُن رہا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ ربر کھانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے تو اُس نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کچھ بھی ہو ربر کو منہ نہیں لگائے گا۔اس طرح وہ ڈانٹ کھائے بغیر ہی سدھر گیا۔بچو آپ بھی اس کہانی سے سبق حاصل کر لو کہ ربر ہو یا پنسل یا چاک،مٹی وغیرہ،ان میں سے خواہ کتنی بھی خوشبو آ رہی ہو ان کو کبھی بھی اپنے منہ کے پاس نہ لاؤ ورنہ آپ کا حال بھی عامر کے جیسا ہو سکتا ہے۔