اے خدا! ہمیں دوبارہ انسان بنا دے!

کہا جاتا ہے کہ فطرت کی ہر مخلوق اپنی شناخت، اپنی فطرت اور اپنے کردار کے ساتھ جیتی ہے۔ شیر کو اپنی طاقت پر ناز ہے، توپرندے کو اپنی آزادی پر اور سانپ کو اپنے زہر پر۔ مگر کبھی کبھی وقت اور حالات کچھ ایسے بدل جاتے ہیں کہ مخلوق اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ ایسی ہی ایک علامتی کہانی ہے جس میں ایک دن سب سانپ اکٹھے ہوئے۔ وہ گلہ کرنے لگے کہ ہم اپنی فطرت بھول گئے ہیں۔اب وہ سب کچھ انسان کر رہا ہے جو ہمارا کام تھا۔ اسی لمحے ایک سمجھدار سانپ بولا:اگر تم رعب اور فریب کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو ہاتھ اْٹھا کر دْعا کرو، اے خدا! ہمیں انسان بنا دے۔
یہ چھوٹا سا جملہ اپنے اندر ایک گہرا فلسفہ رکھتا ہے۔ سانپ، جو ہمیشہ زہر، چالاکی اور ڈر کی علامت مانا جاتا ہے۔ آج خود یہ کہہ رہا ہے کہ انسان ہم سے زیادہ زہریلا، فریبی اور خودغرض ہو چکا ہے۔ یہ کہانی دراصل انسان کے بدلتے ہوئے رویوں اور اخلاقی زوال کا آئینہ ہے۔زمانہ گزرنے کے ساتھ انسان نے ترقی کی، علم و فن میں کمال حاصل کیا، زمین و آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کیا۔ مگر افسوس کہ اس ترقی کے ساتھ انسان نے اپنی انسانیت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج وہ فریب، حسد، لالچ، اور خودغرضی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ شیطان بھی حیران ہو جائے۔ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی زبان اور ذہانت کا ایسا استعمال کرتا ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور کسی کا نقصان ہو جاتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے دیکھ کر سانپوں نے بھی کہا کہ انسان تو ہم سے زیادہ خطرناک ہے۔
سانپ صرف اُس وقت ڈستا ہے جب اْسے خطرہ محسوس ہوتا ہے، لیکن انسان کبھی کبھی دوسروں کو صرف اپنی خوشی یا فائدے کے لیے ڈس دیتا ہے۔ سانپ کے زہر کا علاج ممکن ہے مگر انسان کے زہر یعنی نفرت، حسد، اور جھوٹ کا علاج آج تک نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھدار سانپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر
 طاقت اور فریب کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو انسان بننے کی دْعا کرو۔
یہ جملہ طنز بھی ہے اور سبق بھی۔ یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے اپنی اصل فطرت، اپنی انسانیت، اپنی نرمی اور محبت کو کہاں کھو دیا ہے۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات تھا،جو کبھی رحم دل، نرم مزاج اور خلوص کا پیکر تھا، آج مفاد پرستی، جھوٹ اور خودغرضی میں ڈوب چکا ہے۔
ہماری دنیا آج اسی خودغرضی کا شکار ہے۔ دوست دشمن بن گئے۔ رشتے مفاد کے تابع ہو چکے، سچ کو جھوٹ کی چادر پہنا کر چھپا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر سانپ انسان بننے کی دْعا کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ اب انسانوں میں زہر صرف زبان یا جسم میں نہیں، بلکہ دل اور ذہن میں اْتر چکا ہے۔
یہ کہانی ہمیں اپنی اصلاح کی طرف بلاتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی انسان ہیں یا صرف شکل کے لحاظ سے انسان اور کردار کے لحاظ سے سانپ بن چکے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی انسانیت واپس حاصل کریں، محبت، رحم، سچائی اور خلوص کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر سانپ دْعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں انسان بنا دے۔تو شاید وقت آ گیا ہے کہ انسان بھی دْعا کرے۔اے خدا! ہمیں دوبارہ انسان بنا دے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail