اْستاد نسلوں کا تخلیق کار
تعلیم کی دُنیا میں ایک ایسی چشم و چراغ ہستی جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ جس کے لہجے میں مٹھاس،نگاہوں میں شفقت،کردار میں جامعیت اور وقار میں انسانیت ہے۔ جسے ربی، اُستاد، ٹیچر، معلم یا پھر گرو کے نام سے جانا جاتاہے۔ اسی اْستاد کی کوشش، کاوش اور حکمت سے زمانے روشن ہیں۔ یہ دیئے سے دیا جلاتے ہیں۔ زمانوں کی پہچان اور داستان انہی کے دم سے ہی عیاں ہے۔ آپ ہی کے دم سے آگاہی،علم، منزلیں، کامیابیاں اور کامرانیاں ہیں۔
اگر کسی بھی انسان سے اس کے پہلے آئیڈیل کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ یقیناً اپنے اْستاد کو ہی اپنا آئیڈیل تصور کرتا ہے۔ کسی بچے سے پوچھیں کہ بیٹا بڑے ہو کے کیا بنو گے؟ زیادہ تر بچوں کا جواب ہو تا ہے کہ ٹیچر بنوں گا۔ جب تک طالبعلمی کا دور چلتا ہے زیادہ تر گفتگو میں اْستاد کا ذکر ضرور شامل رہتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو درسگاہ میں اس لئے داخل کراتے ہیں کیونکہ وہ اْستاد پہ بھروسہ کرتے ہیں کہ ان کے بچے کی بھرپور تربیت کی جائے گی اور اس کو زندگی گزارنے کے بہترین اصول سیکھائے جائیں گے۔ یہ اْستاد ہی ہوتا ہے جس کے کاندھوں پہ ان سب کی تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک اچھا اْستاد بے غرض ہو کر اپنے پیشے کے ساتھ وفا داری سے چلتا اور بچوں کی بہتر تر بیت کرتا ہے۔ والدین بچے کو اس دنیا میں لانے کا ذریعہ ہوتی ہیں جبکہ اْستاد بچے کو اس دنیا میں جینا سیکھاتے ہیں۔ہر بچہ چاہتا ہے کہ اْس کے خوابوں کو پَرملیں تاکہ وہ اْڑ سکیں اوراْستاد بچوں کو وہ پَر دیتا ہے تاکہ وہ کامیابی کی اْڑان بھر سکیں۔ اس لئے اْستاد کو روحانی والدین بھی کہا گیا۔ تمام پیشوں میں اْستاد کا رتبہ سب سے معتبر ہے۔
شیخ ابراہیم ندیم کہتے ہیں: آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
اْستاد اْستاد ہوتا ہے چاہے پھر وہ آپ کا ہم عصر یا ہم عمر ہی کیوں نہ ہو۔ اْستاد لفظ جتنا چھوٹا ہے اس کے معنی اتنے ہی وسیع ہیں۔ اْستاد ایک عظیم شخصیت کا نام ہے۔ ایک سائنسدان کے بقول جو بات اْستاد کلاس کے پہلے دن اور آخری دن میں بتاتا ہے وہ پورا سال میں نہیں بتاتا۔ اْستاد کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اور کسی بھی ملک میں اْستاد کو ریڑھ کی ہڈی مانا جاتاہے۔ افراد ہی سے قوم وجود پاتی ہے اس لیے اْستاد پوری قوم کا محسن ہوتا ہے اور وہ پوری قوم کی تربیت کرتا ہے۔ قوموں کو بنانا اور سنوارنا اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ اْستاد ایک چراغ کی مانند ہے جو اندھیرے میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو روشنی بخشا ہے۔وہ ایسی موم بتی بن جاتا ہے جو دوسروں کو روشنی دینے کے لئے خود جلتا ہے۔ سکندر اعظم اْستاد ارسطو سے اختلافات ہونے کے باوجود بھی اپنے اْستاد کی مالی امداد کرتا رہا اور مامون الرشید اور ہارون الرشید جو اپنے دور کے عظیم بادشاہ تھے لیکن اپنے اْستاد کے جوتے اٹھانے کے لیے لڑ پڑتے تھے کہ پہلے میں نے اٹھایا اور میں ہی لے کر جاؤں گا۔ ہر عظیم شخص کی زندگی میں اْستاد کا اہم کردار ہوتا ہے اور وہ اپنے اْستاد کو پیر و مرشد کی طرح مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ اْستاد کی خدمت اور ان کی رہنمائی انسان کو ایک شخص سے کامیاب شخصیت بنا دیتی ہے۔ اس لیے اْستاد کو نسلوں کے تخلیق کار کہا جاتا ہے۔ قاسم علی شاہ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر اْستاد نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کر دے کہ وہ لائق ہو سکتا ہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
معاشرے میں اْستاد کا ایک خاص مقام اور حیثیت ہے، ہر شخص انہیں مودب، باوقار اور سلجھی ہوئی شخصیت قرار دیتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں وہ نہ صرف سلجھی ہوئی شخصیت ہے بلکہ وہ دوسروں کی زندگیاں بھی سلجھا دیتی ہے۔ اگر معلم نہ ہوتا تو اس دنیا میں انسان جانوروں اور درندوں جیسی زندگی گزار کر چلا جاتا۔
ٹیچر خود فقط ایک گمنام کردار ہے لیکن وہ بچوں کو گمنام سے نامور بنا دیتا ہے۔ جس دن بچہ کامیاب ہوتا ہے اس دن نہ صرف ایک بچہ کامیاب ہوتا ہے بلکہ اْستاد کا اْستاد بننے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ سب اْستاد کی محنت کا پھل ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ آج معلم کی عظمت کو فراموش کیا جا رہا ہے اور اسے وہ مقام نہیں دیا جا رہا جو پہلے حاصل تھا، جس کا وہ حقدار ہے۔ اْستاد کی اہمیت اور حیثیت کو کم کرنے میں والدین اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیوں کہ وہ بچوں کے دلوں میں اْس کا خوف، مقام اور عزت پیدا کرنے کی بجائے غلط سپورٹ کر رہے ہیں۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں بچے ان کا سہارا بنیں تو خدارا ان کو ٹیچر کا احترام کرنا سکھائیں اور اْستاد کی عظمت سے آگاہ کریں۔بچوں کو سمجھائیں کہ جب اْستاد بولے تو خاموشی سے سنیں، جب انہیں آتا ہوا دیکھو تو دور سے ہی کھڑے ہو کر استقبال کرو اور اگر ان کے پاس سامان ہو تو آگے بڑھ کر لے لو، ان کے آگے سے کبھی نہ گزرو، چلتے ہوئے ان سے پیچھے رہو، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرو، ان کی عدم موجودگی میں ان کی عزت کا تحفظ کرو، نہ خلاف کوئی بات سنو اور نہ کرو اور ان سے ہاتھ باندھ کر اور فاصلہ رکھ کر بات کرو تاکہ دیکھنے والے پر واضح ہو جائے کہ اْستاد کون اور شاگرد کون ہے؟ اْستاد کا کھویا ہوا مقام انہیں دوبارہ دلانے میں ہم سب کو یکجا ہونا پڑے گا۔ کیونکہ بلاشبہ اْستاد ہی تو ہے نسلوں کا تخلیق کار!