اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار
ایک طالب علم جو حصولِ تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا۔ وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک انگریز فیملی کے ساتھ،اْنہی کے گھر ایک کمرے میں کرائے پر رہنے کا اتفاق ہوا۔یہ فیملی میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ ایک دن دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں؟ میرا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے میں نے حامی بھر لی۔وہ بچہ مجھ سے کافی مانوس تھا کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ مجھ سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئی،ساتھ ہی بچے کی چیخ سنائی دی۔ میں جلدی سے کچن میں گیا اور دیکھا کہ شیشے کے جس گلاس میں بچہ پانی پی رہا تھا وہ اْس کے ہاتھ سے گرِ کر ٹوٹ چکا تھا۔ بچہ ڈر کر اپنی جگہ سہما کھڑا تھا۔ میں نے بچے کو تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور جب آپ کی ماما واپس آئیں تو اْن سے کہنا کہ گلاس انکل سے ٹوٹ گیا تھا۔
میرے لئے یہ ایک معمولی واقعہ تھا اور اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی۔ جلد ہی وہ میاں بیوی واپس آگئے اور میں نے بچے کو اْن کے حوالے کر دیا۔وہ عورت جب کچن میں گئی اور گلاس ٹوٹا ہوا پایا تو بچے سے پوچھا:بچے نے اْس کو وہی بتایا جو کہ میں اْسے سمجھا چکا تھا۔اسی شام کو وہ بچہ میرے پاس بہت افسردہ حالت میں آیا اور مجھے کہا کہ انکل میں نے ماماکو سچ بتا دیا ہے کہ وہ گلاس آپ نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے۔
اگلی صبح میں یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے اْس بچے کی ماں کھڑی تھی۔ اْس نے مجھے صبح بخیر کہا اور نہایت شائستگی سے میرا نام لے کر کہا کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے ہیں۔ مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دے کر اپنا وقار خراب کر لیا ہے۔ ہم نے آج تک کسی بھی معمولی یا بڑی بات پر اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا، نہ کبھی اْس کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے۔ لہٰذا ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ برائے مہربانی آپ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے لیے کسی دوسری رہائش کا بندوبست کر لیجیے۔
آئیے ہم ایک لمحہ سوچیں اور اپنا ہلکا سا احتساب کریں کہ ہم میں سے تقریباً ہر بندہ صبح سے لے کر شام تک معمولی باتوں پر کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہے۔ کتنی دفعہ ہمارے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔بہت بار ہم خود بچوں کا جھوٹ بولنا سیکھاتے ہیں جس پر ہمیں کوئی ملال نہیں ہوتا۔اگر ہمیں اپنے بچوں کو اچھا انسان اور قابل شہری بنانا ہے تو گراس روٹ سے اْن کی تربیت کرنی ہوگی۔تاکہ ہمارا معاشرہ اور ملک دونوں خوشحالی اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوں۔