ہیمبا قبیلہ
ہیمبا ایک نیم خانہ بدوش، چرواہی قبیلہ ہے جو بنیادی طور پر شمالی نمیبیا میں رہتا ہے، کچھ آبادی جنوبی انگولا میں بھی رہتی ہے۔ وہ اپنے مخصوص سرخ اوچر باڈی پینٹ، پیچیدہ زیورات اور اپنے روایتی طرز زندگی کی پابندی کے لیے مشہور ہیں۔ ہمبا ثقافت میں ابتدائی شادیوں اور ذاتی آرائش اور حفظان صحت دونوں کے لیے مٹی اور گیدرکے استعمال،جیسے رواج شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قبیلے کے افراد بالوں کے مختلف ڈیزائن بنانے کے لیے مٹی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ قبیلے کی خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی اپنے سر پرسرخ رنگ کی چمکدار Otjizeنامی مٹی کا پیسٹ لگاتے اور پھر بالوں کو مختلف ڈیزائن دیتے ہیں۔
مٹی سے بنے یہ ڈیزائن ہفتوں بلکہ مہینوں جوں کے توں رہتے ہیں کیونکہ اس قبیلے میں نہانے کی نوبت بھی مہینوں اور سالوں بعد ہی آتی ہے۔ قبیلے کے لوگ یہ مٹی بالوں پر ہی نہیں لگاتے بلکہ اپنے جسموں پر بھی اس کا لیپ کرتے ہیں تاکہ سورج کی گرمی سے خود کو بچا سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قبیلے میں یہ روایت ارتقائی طور پر درآئی ہے۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے پانی کی شدید قلت کا شکار رہا ہے چنانچہ ان لوگوں نے مٹی کا یہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہ لوگ پانی کی بجائے اسی مٹی سے اپنے جسم کو صاف کرتے ہیں اور پہلے والی مٹی اتار کر نئی لگا لیتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں اب اس قبیلے کے کچھ افرادعام کپڑوں میں نظر آنے لگے ہیں تاہم اکثریت اب بھی اپنے اباو اجداد کی طرح چمڑے کا لباس پہنتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہیمبا قبیلے کے افراد کی تعداد لگ بھگ 50ہزار ہے اور اس قبیلے کے زیادہ تر لوگ پڑوسی ملک انگولا کے دریائے کونین کے پاس رہتے ہیں ان کی زبان اوجی ہیمبا ہے۔ ہیمبا قبیلے کی عورتیں اور لڑکیاں اپنے مردوں اور لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ سخت جان اور بڑی محنت کش ہوتی ہیں اور دور دراز سے پینے کا پانی گاڑی میں لانا بھی عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ 1980ء میں علاقے میں زبردست خشک سالی کے نتیجے میں یہ قبیلہ اپنے 90فیصد مویشیوں سے محروم ہوگیا جس کے بعد اس قبیلے کے اکثر لوگوں نے گلہ بانی چھوڑدی اور نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ تاہم اس قبیلے کے لوگوں کے زندہ شعور کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں بھی اپنے تعمیری جذبہ کو برقرار رکھا۔
ہیمبا قبیلے کی جہاں بہت سی اپنی روایات ہیں وہیں ایک اہم روایت کا ذکر بہت ضروری ہے جو کہ نہایت دلچسپ اور ہم سب کے لیے موجودہ دور میں قابلِ غور بھی ہے۔ یہ روایت کچھ یوں ہے کہ ہیمبا قبیلے میں جب کوئی شخص ایسی غلطی کر لے جس سے اسکا اس کے والدین قوم قبیلے کا نام رسوا ہوجائے تو قبیلہ اس فرد کو میدان میں بٹھا کر اس کے اردگرد دائرے میں جمع ہو جاتا ہے. پھر سب مل کر ایک گیت گاتے ہیں اورمجرم سر جھکائے زار و قطار روتا ہے،سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ آخریہ گیت کونسا ہے؟
ہیمبا قبیلے میں بچے کی تاریخ پیدائش کا حساب ویسا نہیں ہوتا جیسے باقی دُنیا میں ہے۔وہاں بچے کی تاریخ پیدائش کا حساب ماں اپنے حمل سے پہلے طے کرتی ہے۔لڑکی کو جب ماں بننے کی خواہش ہو جائے تو وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے بچے کو تصور میں لاتی ہے۔پھر اس کیلئے ایک گیت گاتی ہے۔وہ گیت جس کی شاعرہ وہ خود ہوتی ہے۔وہی گیت وہ بچے کے باپ کو لفظ بہ لفظ یاد کراتی ہے۔حمل کے بعد گھر کی ہر عورت اس بچے کا یہ گیت یاد کرتی ہے اورجب بھی وہ اس ماں کی کوئی خدمت کرتی ہیں تو یہی گیت گاتی ہیں۔بچے کی پیدائش پر سارا گھر یہی گیت گاتا ہے۔قبیلہ اس بچے کے نام کے ساتھ یہ گیت بھی یاد کر لیتا ہے۔
یہی گیت اس بچے کا زندگی بھر پیچھا کرتا ہے۔وہ جب کوئی اچھا کام کرے تو قبیلہ تالیاں بجا بجا کر اسکا گیت گاتا ہے۔ وہ بیمار ہو جائے تو مزاج پرسی میں یہی گیت گایا جاتاہے۔وہ جب مایوس ہو تو دوست اس کیلئے یہی گیت گاتے ہیں۔دراصل یہ گیت اس کی پہچان بن جاتا ہے۔اس لئے جب وہ غلطی کر بیٹھے تو قبیلہ اسے یہی گیت سناتا ہے اورمجرم اسی لئے زار و قطار روتا ہے کیونکہ اس کی ماں کی نظریں اس کی وجہ سے جْھک گئیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے لیکن افسوس کہ ہمارے اس معاشرے کی اولاد شائد اپنی ماؤں کی لوریاں بھول چکی ہیں یا مائیں لوریاں سنانا بھول گئی ہیں؟ پتہ نہیں کیوں یہاں کوئی مجرم اب شرمندہ نہیں ہوتااور نہ ہی غلطی کر کے خود کو مجرم سمجھتا ہے۔
Daily Program
