پکھی واس
زندہ دلان لاہور میں ایسی 323بستیاں آباد ہیں جھگیوں میں رہنے والے ان باسیوں کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ پکھی واس،بنجارے،خانہ بدوش ان کے وہ نام ہیں جن سے ان کو پکارا جاتا ہے۔لاہور کے 29ایکڑ رقبہ پر دریائے راوی کے دونوں کناروں پر محیط ان بستیوں میں 410ان پکھی واسوں کے خاندان مقیم ہیں ایک خاندان میں ان کی تعداد 10سے 12افراد کی ہے یہ تقریباً چھ ہزار افراد زندگی کی بنیادی سہولتوں اور ضروریاتِ زندگی سے محروم نظر آتے ہیں۔دسمبر کے جاڑوں اور جب بارش برس رہی ہو تو کپڑے کی ان کٹیاؤں میں انسان کے پاس اس سوچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ کاش ہماری جھگیوں سے چند قدم کے فاصلے پر محل نما بنگلوں کے مکیں بھی اس کرب کو محسوس کر سکیں۔ قیامت کی رات ٹھٹھرتی سوچوں میں گزر جاتی ہے۔
یہ پکھی واس سیزنل ہوتے ہیں س یعنی یہ عارضی بستیاں بساتے ہیں اور اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اس دور میں بھی ایسے ٹھکانوں میں وہ رہتے ہیں جن کی چھتیں پھٹے پرانے کپڑوں کی ہوتی ہیں اور ان عارضی چھتوں کے نیچے ایک ہی بستر پر کئی افراد جن میں خواتین،بچے اور مرد ہوتے ہیں نظر آتے ہیں۔
ننگ دھڑنگ بچے جاڑوں کے موسم میں پاؤں کے جوتے سے بے نیاز کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینکے گئے عرشی طبقہ کی طرف سے ادھ کھائے پھلوں یا رات کو بچ جانیوالے کھانے کے نوالوں سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ بڑا سا برتن اُٹھائے ان پکھی واسوں کی عورتیں کسی صاحب ثروت کے در احساس پہ دستک دیکر جب اپنے لیئے بچی کْچی روٹی کا نوالہ طلب کرتی ہیں۔
پکھی واسوں کی زندگی قناعت سے ایسے گزرتی ہے کہ جو ملا کھا لیا اور پہن لیا۔ یہ طبقہ آج بھی اس حال میں ہے کہ جسم ڈھانپے تو پاؤں ننگے ہی رہتے ہیں۔یہ بچوں کی شادیاں اوائل عمر میں ہی کر دیتے ہیں۔