پنجارا
سردیوں کے موسم میں خاندان کے بچے اپنے بڑے بزرگوں خصوصاً نانی یا دادی اماں کے ساتھ ایک بڑے سے گرم لحاف میں بیٹھ کر کہانیاں سنا کرتے تھے اور دیگر افراد بھی ایسے ہی بیٹھ کر خشک میوہ جات یا مونگ پھلی پھانکتے ہوئے اپنے روز مرہ کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔سرد یاں آنے سے پہلے ہی گلیوں میں روئی دھنکنے والے کی صدا بلند ہوتی تھی اور گھر کی خواتین جاڑے سے پہلے لحافوں کی روئی دھنکوا لیا کرتی تھیں کہ نرم روئی سردی روکنے میں بہت کارگر ثابت ہوتی تھی۔وقت بدلہ اور جہاں بہت سی مشینوں نے انسان کی جگہ لے لی وہیں روئی دھنکنے والا یہ کردار اور سردیوں سے جڑی یہ خوبصورت روایت ختم ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔
پہلے ہاتھ سے روئی کی دھنائی ہوتی تھی کیونکہ طریقہ ہی صرف یہی تھا۔اس میں ٹائم زیادہ لگتا تھا، سارے دن میں دھنائی کر کے پانچ سے دس رضائیاں بنتی تھیں۔ اب مشینی دورہے ان کی مدد سے تقریباً 100 سے لے کر 200 تک ایک دن میں رضائی تیار کی جاتی ہے اب کاریگر مشین سے بھرائی کرتے ہیں، پھر چھڑی سے اسے ہموار کرتے ہیں اور سلائی کر کے دیتے ہیں۔
زیادہ نہیں، تین دہائیاں پہلے کی بات ہے کہ برصغیر کے تینوں ممالک انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں روئی دھننے کیلئے ایک خاص تکنیک کا استعمال ہوتا تھا، جس کیلئے ایک اوزار یا آلے کا استعمال ہوتا تھا۔ ماہر لوگ وہ خاص اوزار ہاتھ میں لے کر گلی کوچوں میں گھومتے پھیرتے تھے تاکہ کوئی ان سے روئی دھننے کا کام لے اور وہ دو وقت کی روٹی کما سکے۔ جدید دور کی سہولیات تو اس وقت تھیں نہیں۔ نہ ہی اس وقت آجکل کی طرح گرم لحاف اور کمبل وغیرہ دستیاب تھے۔ لوگوں روئی والی رضائیوں اور بستروں کا استعمال کرتے تھے۔ جو بھاری ہوا کرتے تھے۔
سردیوں میں رضائی کو اپنے اوپر پوری رات اوڑھے رکھنا بہت جدوجہد کا کام ہوتا تھا۔ اکثر جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ رضائی سے باہر رہتا تو سردی کی وجہ سے نیند میں خلل پڑ جاتا۔ دیسی رضائی کو گرم ہونے میں وقت لگ جاتا۔ البتہ اگر ایک دفعہ گرم ہو جاتی تو پھر بہت آرام دہ رہتی تھی۔ پھر کمال کی نیند آتی تھی۔بستروں، رضائیوں اور تکیوں میں بھری ہوئی روئی اکثر میلی ہو جانے سے سخت ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ تو وہ آرام سے زیادہ تکلیف دیا کرتی تھی۔ روئی کو پانی سے دھونے سے یہ مزید سخت ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس کو دھونے سے گریز کیا جاتا ہے اور اسے دھنا جاتا تاکہ ریشہ ریشہ ہو کر نرم رہ سکے۔ روئی دھننے کیلئے خاص اوزار کو استعمال کرنے والے گاؤں یا گلی محلے ہر روز تو نہیں مگر ایک دو مہینوں بعد چکر لازمی لگایا کرتے تھے۔ ان کو پتہ ہوتا تھا کہ فلاں گاؤں میں کس وقت جانا ہے کیونکہ روئی میلی ہونے کی مناسبت سے وہ اس کا اہتمام کرتے تھے۔
پشتو میں روئی دھننے والے اس آلے کو ”ڈغ“ کہا جاتا تھا۔ اوزار کی بناوٹ کی مناسبت سے اس کو زیادہ تر لوگ ”ڈغ ڈبلئی“ بھی کہا کرتے تھے۔ اس اوزار کے استعمال کرنے والوں کو ”ڈغبا“کہا جاتا تھا۔”ڈغ“ کو استعمال کرنے کیلئے کسی دیوار یا چھت میں اس کے ایک حصے کو ٹونکا جاتا تھا۔ دوسرا حصہ ”ڈغبا یعنی روئی دھنکنے والے“ کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس کی آواز کسی میوزیکل انسٹرومنٹ (موسیقی کے آلے) سے کم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی آواز تقریباً سِتار کی آواز جیسی ہوتی تھی۔ ”ڈغبا“ بھی اس کو بڑے کمالِ مہارت سے استعمال کرتا تھا۔ وہ بھی اس کو کسی موسیقی کے آلے جیسا استعمال کرتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنی تھکاوٹ اور بوریت کو ختم کرنے کیلئے اس آواز کو موسیقی جیسا پیدا کرتا تھا۔ اس سے ارد گرد موجود لوگ بھی محظوظ ہوتے تھے۔
پنجاب میں روئی دھننے والوں پنجارا کیا جاتا ہے۔روایتی پینجے کے اوزاروں میں کمان، پنجن، تندی، جھانڈا اور تاڑا شامل ہوتے ہیں، جن کا زمانہ قدیم سے استعمال ہو رہا ہے۔ جدید مشینی پینجوں کے برعکس روایتی پینجے پر کام مشکل ضرور ہے لیکن بہت سے لوگ اسی پینجے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مشینی پینجے کی نسبت روایتی پینجے سے روئی کی دھنائی اچھی ہوتی ہے اور کپاس بالکل باریک اور صاف ستھری ہو جاتی ہے۔روئی دھنکنے والے کاریگر نے اپنی ناک پر کپڑا لپیٹا ہوا ہوتا تھا مگر اردگرد موجود لوگ روئی کے ریشوں اور گرد وغبار ناک میں جانے سے لازمی چھینکا کرتے تھے۔ زیادہ تر بچے کیونکہ وہ اس کے گرد جمع ہوتے تھے۔ بچوں کیلئے یہ کسی تماشے سے کم نہیں ہوتا تھا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ دیسی رضائی دیر پا اور اچھی ہوتی ہے۔جبکہ پولیسٹر ملی روئی کے مختلف لحاف دیسی رضائی کی معیار کے نہیں ہیں۔دیسی روئی کھیتوں میں اگنے والی کپاس کی اچھی کوالٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر ملوں میں استعمال ہونے کے بعد جو ذرا کم معیار کی روئی بچتی ہے وہ بھی لحافوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک بہترین رضائی میں عموماً پانچ کلو روئی استعمال ہوتی ہے۔
وقت ایک رفتار سے گزر رہا ہے۔ دنیا بھی ترقی کر رہی ہے۔ انسان اپنی سہولت کیلئے ہر چیز میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر جدت لا رہا ہے۔ افسوس کہ یہ جدت روئی کی دھنائی کے قدیمی کام کو کھا گئی۔ان کی جگہ اب نت نئے ڈئزائن کے کمبلوں اور مشینی رضائیوں نے لے لی ہے۔