پاکستان کے صوبہ پنجاب کے لوک رقص
پاکستان ایسے خطہ ارض پر واقع ہے جس کی تاریخ بہت پرانی اور مختلف النوع ثقافتی روایات سے بھرپور ہے اور یہاں شروع سے ہی فنون لطیفہ لوگوں میں انتہائی مقبول صنف رہی ہے۔اب چاہے وہ اداکاری ہو، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی یا موسیقی مگر ایک صنف ایسی ہے جس میں پاکستان کو دنیا کے بیشتر ممالک پر بالادستی حاصل ہے اور وہ ہے اعضاء کی شاعری یعنی رقص جس کے مختلف لوک انداز یہاں صدیوں سے رائج ہیں۔پاکستان کے ہر خطے کے رہنے والوں کے اپنے مختلف لوک رقص ہیں جو خوشی کے اظہار سے بھرپور ہوتے ہیں جنھیں دیکھنا بھی پرمسرت تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ہر صوبے میں خوشی منانے کے لیے مختلف انداز کے رقص کا سہارا لیا جاتا ہے اب وہ بچے کی پیدائش ہو، شادی یا کسی بھی وجہ سے ہونے والی تقریب جن میں مقامی روایات کا تڑکا اس کا لطف دوبالا کردیتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر صوبے میں ایک نہیں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ تو اس خوبصورت روایت کے مختلف انداز جانیے جو پاکستانی ثقافت کی جان ہیں۔
بھنگڑا
بھنگڑابرصغیر پاک و ہند کا ایک روایتی رقص ہے، جو پنجاب کے علاقے ماجھا کے علاقے سیالکوٹ میں شروع ہوتا ہے۔ اس رقص کا تعلق بنیادی طور پر بہار کی کٹائی کے تہوار بیساکھی سے تھا۔ بھنگڑا بنیادی طور پر کٹائی کے موسم میں پنجابی کسان کیا کرتے تھے۔ جب وہ ہر کاشتکاری کی سرگرمی کرتے تو وہ موقع پر ہی بھنگڑا ڈالتے جس سے انھیں خوشگوار انداز میں اپنا کام ختم کرنے کا موقع ملتا۔ ویساکھی کے موسم میں اپنی گندم کی فصل کاٹنے کے بعد، لوگ بھنگڑا ڈانس کرتے ہوئے ثقافتی تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔ کئی سالوں سے کسانوں نے کامیابی کا مظاہرہ کرنے اور کٹائی کے نئے سیزن کے استقبال کے لیے بھنگڑا ڈالا ہے۔ روایتی بھنگڑا کی ابتدا قیاس آرائیاں ہیں۔ ڈھلون (1998) کے مطابق، بھنگڑا کا تعلق پنجابی ڈانس ' بیگ' سے ہے، جو پنجاب کا مارشل ڈانس ہے۔ تاہم، ماجھا کے لوک رقص کا آغاز سیالکوٹ میں ہوا اور پھر اس نے گوجرانوالہ، شیخوپور، گجرات (پاکستان کے اضلاع) اور گورداسپور (پنجاب، ہندوستان میں ضلع) میں جڑ پکڑ لی۔ ضلع سیالکوٹ کے دیہات میں بھنگڑا کی روایتی شکل کو رقص کہا جاتا تھا جسے معیار سمجھا جاتا تھا۔ روایتی بھنگڑا کی کمیونٹی فارم ہندوستان کے گورداس پور ضلع میں برقرار ہے اور ان لوگوں کو برقرار رکھا گیا ہے جو ہندوستان کے تقسیم کے بعد پاکستان کے نو تشکیل شدہ ملک چھوڑنے کے بعد، بھارت، پنجاب، بھارت کے ہوشیار پور میں آباد ہیں۔ روایتی بھنگڑا دائرے میں انجام دیا جاتا ہے اور روایتی رقص کے اقدامات کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ روایتی بھنگڑا اب فصل کے موسم کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔گنہار (1975) کے مطابق، بھنگڑا جموں میں درآمد کیا گیا ہے جسے بیساکھی پر ناچا جاتا ہے۔ دوسرے پنجابی لوک رقص جیسے گدا اور لودھی کو بھی جموں میں درآمد کیا گیا ہے۔ جب لوگ اس طرح کے ناچتے ہیں توپنجابی زبان کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جموں کا تعلق پنجاب کے علاقے میں آتا ہے اور اس کا پنجاب سے تعلق ہے۔
موسم میں اپنی گندم کی فصل کاٹنے کے بعد، لوگ بھنگڑا ڈانس کرتے ہوئے ثقافتی تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔ کئی سالوں سے کسانوں نے کامیابی کا مظاہرہ کرنے اور کٹائی کے نئے سیزن کے استقبال کے لئے بھنگڑا ڈالا ہے۔ یہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتداء پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے جس کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔ اس کا آغاز وسطی شمالی پنجاب میں کاشتکاری کے میلوں کو منانے کے لیے ہوا اور تقسیم برصغیر کے بعد یہ پاکستان و ہندوستان بھر میں عام ہوگیا تاہم اسے بھنگڑا نام 1950 کی دہائی میں دیا گیا نوے کی دہائی میں اس میں مغربی تڑکا بھی لگا دیا گیا جس کے بعد اس نے مقبولیت کے نت نئے ریکارڈ بنا دیئے اور اب دنیا بھر میں جانا پہچانا رقص ہے۔
لڈی
لڈی پنجاب کا ایک مشہور لوک ناچ جو بہت سے لوگ مل کر آگے پیچھے ایک دائرے میں حرکت کرتے ہیں۔لڈی ایک نشیلا لوک ناچ ہے اس کے رسیلے گیت نہیں گاتے وہ صرف ناچتے ہیں۔ گھنٹوں بازوؤں کو لہراتے اور بے خودی کی حد تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڈی خوشی اور کامرانی کا گیت ہے۔ ڈھول کے ارد گرد نوجوان مرد اور عورتیں حلقہ باندھ کر ناچتے ہیں اور چکر کاٹتے ہیں۔ اس میں پاؤں کی حرکت زیادہ ہوتی ہے اور لہک لہک کر ایسے اشارے کرتے ہیں کہ گویا ڈھول کو چھونا چاہتے ہیں۔ یہ منظر بڑا دلکش، جوش انگیز اور جاذبِ نظر ہوتا ہے۔ ناچنے والے تو ایک طرف رہے دیکھنے والے بھی ناچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ علاقہ دھنی میں عموماً یہ ناچ بیاہ شادیوں کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات لڈی کے بغیر نامکمل مانی جاتی ہیں جو عام طور پر تقریبات میں شامل ہر عمر کی خواتین کرتی نظر آتی ہیں اور یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے جس کی مقبولیت میں آج تک کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔ اس کا آغاز سب سے پہلے کھیلوں کے مقابلے میں فتح کے بعد کھلاڑیوں کے خوشی منانے کے انداز سے ہوا اور پھر یہ شادیوں میں زیادہ مقبول ہوا جس میں اب تک کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔
سمی
سمی پنجاب بالخصوص پوٹھوہار کا ایک روایتی ناچ ہے۔ یہ خوشی کے موقعوں پر ٹولیوں کی شکل میں دائروں میں کیا جاتا ہے۔ ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں پر گھنگرو بندھے ہوتے ہیں۔ ایک تالی نیچے بائیں مارتے ہیں اور پھر ایک دائیں اوپر۔ یا پھر گھنگروں کے بغیر بائیں طرف تالی بجاتے ہیں اور دائیں طرف چٹکی۔پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس تھا جسے پنجابی فلموں نے مقبول بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں رقاص چمکدار کرتوں اور لہنگے پہن کر رقص کرتے ہیں اور یہ ایک حلقے میں کیا جاتا ہے تاہم یہ بہت آہستگی سے کسی المیہ موسیقی پر کیا جاتا ہے۔
گدا
یہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے جو ماضی میں گھنٹیوں کی تال پرکیا جاتا تھا مگر اس میں توانائی بہت زیادہ نظر آتی ہے اور عام طور پر اسے بہت خاص مواقعوں پر ہی کیا جاتا ہے تاہم تفریحاً بھی لوگوں کو یہ پنجابی لوک رقص بہت پسند ہے۔ رقص کرنے والوں کا فلو عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے جس کے ساتھ ڈھول بھی جوش و خروش میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی رنگارنگ قسم کا رقص ہوتا ہے جو ملک بھر میں کافی مقبول ہے۔گدا، بھارت اور پاکستان کے خطہ پنجاب کی عورتوں کا ایک مقبول لوک ناچ ہے۔ اس رقص کو عمومًا قدیم جھومر رقصوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہ بھنگڑا ہی کی طرح توانائی خرچ کرواتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ خواتین کی لوچ، لچک اور زنانہ زینت کو تخلیقی انداز سے پیش کرتا ہے۔ عورتیں اس رقص کو تہواروں اور سماجی تقاریب کے مواقع پر پیش کرتی ہیں۔