پاکستانی ٹرک آرٹ
پاکستان میں ٹرک آرٹ کا آغاز پچاس کی دہائی کے اوائل میں ہوا۔پاکستان کے مختلف حصوں میں ٹرک آرٹسٹ موجود ہیں۔ جو ٹرکوں اور بسوں کی آرائش کا کام کرتے ہیں۔ تاہم راولپنڈی ٹرک آرٹ کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ٹرک آرٹ پاکستان کا ایک مقبول ترین آرٹ کہا جاتا ہے، پاکستان میں ہمیشہ سے ہی ہر طرح کے آرٹ کو مقبولیت حاصل ہے لیکن ٹرک آرٹ نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس آرٹ کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہے۔
پاکستانی ٹرک آرٹ کا نام بیرون مالک سے ملا ہوا ایک نام ہے۔ یہ نام انگزیروں کی جانب سے ملا ہے جنھوں نے اسکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے‘ٹرک آرٹ’کا نام دیا تھا۔ جبکہ پاکستان میں اس آرٹ کو منفرد انداز میں پیش کیا جاتا ہے اس کو سب سے زیادہ ٹرکوں اور بسوں پر پایا جاتا ہے۔ اس آرٹ میں رنگ برنگے خوبصورت ڈیزائنز کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں پھول پتے، نقش و نگار اور مختلف ڈزاینز شامل ہیں۔ شاندار مصوری کا نمونہ پیش کرتے یہ ٹرک خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
پاکستان کے ٹرک آرٹ کو دنیا بھر میں منوانے اور ان ٹرکوں کو رنگوں سے بھرنے میں ایک ہاتھ پاکستانی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی کا بھی ہے جنہوں نے دنیا کے کئی ممالک میں جاکر پاکستان کے اس منفرد کام کو منوایا اور خوب داد وصول کی۔وہ اب تک کئی افراد کو ٹرک آرٹ کے حوالے سے تربیت بھی دے چکے ہیں اور چند نوجوان بھی ان سے تربیت حاصل کر رہے ہیں جو اب یہیں کام کر رہے ہیں اس سمیت انھوں نے بیرون ممالک کے کئی لوگوں کو بھی اسکی تربیت دی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹرک میں تو سامان ہی جانا ہے تو اس کی اتنی تزئین و آرائش کی کیا ضرورت ہے؟تو ایسے میں ٹرک ڈراؤرز کا کہنا ہے کہ ٹرک ڈرائیور لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور اکثر اکیلے ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے ٹرک کو دلہن کی طرح سجانا چاہتے ہیں تاکہ سفر کی بوریت کو دور کر سکیں۔
ٹرک آرٹ میں صرف رنگوں کا کھیل شامل نہیں ہے کیونکہ رنگوں سے بنی تصاویر صرف دن کی روشنی میں دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ رات میں ٹرک ان خوشنما نقش و نگار کے باوجود محض ایک سیاہ ہیولا ہی نظر آتا ہے۔یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹرک آرٹسٹوں نے دوسری کئی قسم کی تزئین و آرائش کا سہارا لیتے ہیں جس میں پلاسٹک، کاغذ اور لوہے کی پتیوں سے بنے گول، مستطیل اور بیزوی شکل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ٹرک کی باڈی پر پیچوں کے ذریعے خاص تراکیب میں کس دیے جاتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں دوسری گاڑیوں کی روشنی پڑنے پر یہ اشکال چمک اٹھتی ہیں اورگھپ اندھیرے میں بھی دور سے یوں لگتا ہے جیسے کوئی دلہن چلی آرہی ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرک آرٹ میں کوئی ڈیزائنر نہیں ہوتا۔ بلکہ تمام نقشو نگارٹرک آرٹسٹ کے ذہن کی اخترا ہوتے ہیں۔ وہ خود ہی سوچتا ہے اور جو ڈیزائن اس کے ذہن میں آتا ہے وہ اسے رنگوں کے ذریعے ٹرک کی باڈی پر بکھیر دیتا ہے۔
حکومت پاکستان نے ٹرک آرٹ کی اس نئی قسم کے متعارف ہونے کے بعد اس فن کو قومی ورثے کا درجہ دے دیا۔جس سے ٹرک آرٹ اور ٹرک آرٹسٹس کو دنیا بھر میں پہچان اور پذیرائی حاصل ہوئی۔