مٹی سے برتن بنانے کا قدیم ہنر آج معدومیت کا شکار ہے
مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کمہار کہا جاتا ہے اورکراچی کے قدیم علاقے کی ایک بستی میں مٹی کے برتن بنانے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ کمہار واڑہ کے نام سے معروف ہے۔یہ برادری اندرون سندھ کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بھی رہتی ہے۔ نیوکراچی قبرستان کے سامنے واقع گوٹھ میں کمہار کے پیشے سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد رہتی ہے جن کی ہنرمندی کے شاہ کار مٹی کے برتنوں کی صورت میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکتے نظر آتے ہیں۔ مٹی سے ظروف سازی کاہنر دنیا کے ہر معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن برصغیر میں اس فن نے عروج کی منازل طے کیں۔آج بھی سندھ کے زیادہ تر کاریگروں کے ہاتھوں میں ایسا جادو ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مٹی کے ڈھیر کو چاک پر رکھ کر انتہائی خوبصورت برتن میں تبدیل کردیتے ہیں۔ دوعشرے قبل تک گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا۔
مٹی سے برتن، مجسمے، کھلونے اور دیگر اشیاء بنانے کا فن انتہائی قدیم ہے اوروادی سندھ کی ہزاروں سالہ قدیم تہذیبوں میں بھی اس کے آثار ملے ہیں۔سندھ کی آمری اور موئن جو دڑو تہذیب جو ہزاروں سال قبل مسیح کی ہیں، ان میں بھی مٹی سے ظروف سازی کے آثاردریافت ہوئے ہیں۔آمری گاوئں کے کھنڈرات سے دیگر نوادرات کے ساتھ ایسے برتن بھی برآمد ہوئے ہیں جو عمدہ ملائم بادامی یا سرخ و گلابی مائل گندھی ہوئی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، جو ظروف سازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان میں سے بعض میں سفید اور بعض میں ہلکے سبز رنگ کے شیڈ نظرآتے ہیں۔ سندھ کے دیگر مقامات سے جو برتن دستیاب ہوئے ہیں، ان کی بناوٹ گلاب کے کٹورے جیسی ہے۔
موئن جو دڑوکے کھنڈرات سے بھی کھدائی کے دوران مٹی کے برتن،کھلونے، مجسمے اور دیگر اشیاء برآمد ہوئیں جن میں سے بیشتر چاک اور چکنی مٹی سے بنائی گئی تھیں۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی ہے جو اونچے پائیدان پر جوڑی گئی ہے۔ اسے چڑھاوے کا پائیدان کہا جاتا ہے۔بعض برتنوں پر ایسی مہر یں کندہ کی گئیں جس پرابھری ہوئی تحریریں ناقابل فہم زبان میں ہیں۔سندھ سے ظروف سازی کا ہنر چین، مراکش،اندلس اور برصغیر منتقل ہوگیا۔مورخین کے مطابق سکندر اعظم دریا کی مٹی سے برتن بنواکر ان میں کھانا کھاتا تھا اورمٹی کے برتنوں میں ہی پانی پینا پسند کرتا تھا۔
مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے کیونکہ انہیں اس کام کا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔ اس قدیم صنعت کوحکومتی سطح پر نظرانداز کیے جانے کے بعدسے یہ زوال کا شکار ہے
ماہر کاریگر کے ہاتھوں سے بنائی گئی مٹی کی مختلف النوع اشیاء نوادرات کی صورت میں بیرونی ممالک برآمد کی جاتی تھیں جن سے ملکی خزانے کوخطیر زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ لیکن اب ماہر کاریگر یا تو وفات پاچکے ہیں یا پھرروزگارکے دوسرے شعبوں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان برتنوں کی تیاری میں لاگت اور محنت بہت زیادہ ہے مگر اس کے مقابلے میں آمدنی انتہائی کم ہے۔اْن کا کہنا ہے کہ برتن بنانے کے لیے ہم پہلے مٹی گوندھتے ہیں، پھر اسے مختلف سانچوں میں ڈال کر یا اپنی فن کارانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف النوع شاہ کاروں میں ڈھالتے ہیں،ان پر رنگوں اوربرش کی مدد سے ڈیزائننگ کی جاتی ہے، ان پر پینٹنگز بنائی جاتی ہیں جو انتہائی مشقت طلب کام ہے لیکن پذیرائی نہ ملنے کے سبب اب اس کا مستقبل معدوم ہوتا جارہا ہے