لچھا چینی کی روئی نما مٹھائی
ب سے پہلے تو یہ وضاحت کر دی جائے کہ لچھا آخر ہے کیا تو جی لچھا چینی کی روئی نما مٹھائی ہوتی ہے جو منھ میں رکھتے ہی گھل جاتی ہے۔لچھا مختلف رنگوں میں بنتا ہے۔ پاکستانی ہنر مند اس مٹھائی کو خوبصورت شکلوں میں ترتیب دینے میں یکتا ہیں۔ ہمارے بچے جو آج کل کاٹن کینڈی کے نام سے کھاتے ہیں وہ پہلے لچھا ہوا کرتا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ گلی میں لچھے والے کی گھنٹی ٹن ٹن ٹن بجتی اور محلے کے سب بچے ننگے پاؤں میں باورچی خانے کی جانب دوڑتے، کسی چھوٹے سے کپ میں چینی ڈالتے اور باہر لے آتے۔ جوتے اس لیے نہیں پہنتے کہ ایک تو ان کی آواز ہوتی اور دوسری وجہ یہ ہوتی کہ کہیں لچھے والا چلانہ جائے۔ باہر دو تین بچے پہلے سے اسے گھیرا ڈالے ہوتے۔ اچھی بات یہ تھی کہ تب پیسے نہ بھی لے کے جاؤ تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ آدھی چینی کے لچھے بنا دیتا تھا اور باقی آدھی چینی اس کی فیس بن جاتی۔ دو سو گھروں کی چینی سارا دن وہ اپنے میلے سے تھیلے میں انڈیلتا رہتا تھا۔جوبچہ پیسے بھی ساتھ لے کے جاتا وہ بادشاہ ہوتا، اس کی ساری چینی کے لچھے بنتے جو پلیٹ میں سے نکل کر اس کے منہ تک آ رہے ہوتے۔
لچھا بنانے والے شخص کی سائیکل کے پیچھے کیریر پہ اس کی مشین ہوتی اور اسے چلانے کے لیے وہ چین کے پاس کوئی لیور سا نیچے کرتا تو سائیکل کی چین مشین کے ساتھ کام کرنے لگ جاتی۔اور اگر مشین ریڑھی پر رکھی ہوتی تو ایسے میں سائیکل کا ایک پہیہ چین سمیت اس کے ساتھ لگا ہوتا تھا۔ کمہار کے چاک جیسی گھومنے والی وہ بڑی سی لچھا میکر مشین اس پہیے کو ہاتھ سے گھمانے پر چلتی تھی اور اس کے نیچے ایک چھوٹا سا چولہا ہوتا تھا۔ جیسے ہی گول بڑی تھالی جیسی مشین کے بیچ میں چینی ڈال کے پہیہ گھمانا شروع کیا جاتا، اسی وقت بادلوں کے جیسے ملائم نیم گرم لچھے گول گول تہہ میں ایک دوسرے کے اوپر نازل ہونا شروع ہو جاتے۔
لچھے والا بڑے احترام سے انہیں اٹھا کے ہماری پلیٹوں میں رکھتا چلا جاتا۔پھر وہ اتنے نازک ہوتے کہ احتیاط ان کے لیے بہت چھوٹا لفظ ہے۔ نرم ہاتھوں سے اٹھانا بھی ہے، بچانا بھی ہے، برتن کی گولائی پر جمی چینی سے چھڑانا بھی ہے، گولائی بھی نہیں ٹوٹنے دینی اور پلیٹ پہ بھی رکھنا ہے۔یہ سب کام لچھا بنانے والا نہایت مہارت سے انجام دیتا۔
افسوس کہ ہمارے بچوں سے یہ دھندلکا چھن چکا ہے۔ ان کا بچپن ہمارے موبائلز اور انٹرنیٹ کی نذر ہو رہا ہے۔ ان کے پاس وہ نامحسوس ڈور نہیں ہے جو بے یقینی کو یقین سے ملاتی تھی، جس کے سہارے ہم کہانیاں بْنتے تھے، ہمیں آسمان پہ دھوئیں کی باریک لکیر چھوڑنے والا جہاز چاند کو جاتا راکٹ لگتا تھا اور جو جہاز تھوڑا نیچے نظر آتا اسے ہم اس یقین سے بائے بائے کرتے تھے جیسے مسافر ہمیں جواب دے رہے ہوں گے۔ ہمیں لیے تو یہ بات بھی پکی تھی کہ مور کے پر چینی کے ساتھ کسی کتاب میں رکھیں تو وہ کچھ دن بعد ڈبل ہو جاتے ہیں یا سکہ ریل کی پٹری پہ رکھا جائے، اور ٹرین اس پر سے گزر جائے تو وہ مقناطیس بن جاتا ہے۔
اب والے بچے دماغ سے زیادہ گوگل کی مدد لیتے ہیں اور یہ بھی ان کو ہماری ہی عطا ہے۔ انہیں سب کچھ پتہ ہے۔ وہ مور کے پروں کو چینی سمیت کتاب میں دبانے سے پہلے اس کا نتیجہ گوگل پہ دیکھ لیں گے۔اب ہوتا کیا ہے، بچہ جانتا ہے کہ یہ کس طریقے سے بنایا جاتا ہے اور جب بھی دل کرے تو فلاں جگہ سے لے کر کھایا جا سکتا ہے، لچھا بنانے والے کا انتظار نہیں کرنا ہے، پیسے جیب میں ہوں تو پوری دنیا لچھے کی چلتی پھرتی مشین ہے۔