قالین بافی
قالین بافی کے دستکار اپنی انگلیوں میں بھرے جادوئی ہنرسے اس صنعت کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ قالین بافی میں دستکاروں کی تعداداب کم ہورہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود کچھ دستکار اس صنعت کوزندہ رکھتے ہوئے قالین بافی میں ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ قالین بافی پاکستان میں گیارہویں صدی سے پہلے پہلے مسلمان فاتحین، افغان غزنویوں اور غوریوں کے آنے سے ہی متعارف کرائی گئی ہو۔ سولہویں صدی کے اوائل میں مغل سلطنت کے آغاز تک اس کا زیادہ پختہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جب تیمور کے آخری جانشین، بابر نے کابل، افغانستان سے ڈھاکہ، بنگلہ دیش تک اپنی حکمرانی میں توسیع کی اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلوں کی سرپرستی میں، مقامی کاریگروں نے فارسی تراکیب اور ڈیزائن اپنائے اور خوبصورت قالین تیار کیے۔ اْس وقت پنجاب میں بنے ہوئے قالین مغل فن تعمیر میں پائے جانے والے نقشوں اور آرائشی طرزوں کا استعمال کرتے تھے۔
مغل دور میں، جنوبی ایشیاء میں بنے قالین اس قدر مشہور ہو گئے کہ ان کا مطالبہ بیرون ملک پھیل گیا۔ ان قالینوں نے مخصوص ڈیزائن اور اعلی گرہ کثافتوں کو بڑھایا۔ جہانگیر اور شاہ جہاں سمیت مغل بادشاہوں کے لئے بنے قالین بہترین معیار کے تھے۔ شاہ جہاں کے دور میں، مغل قالین بافی نے ایک نئی جمالیات کا آغاز کیا اور اپنے کلاسیکی مرحلے میں داخل ہوا۔
قالین بافی کی اس صنعت سے وابستہ لوگ حکومت کی جانب سے کوئی خاص مددنہ ملنے پرمایوس ہیں۔ مشینوں سے تیارکردہ قالین اورحکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ صنعت دم توڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔کاریگروں کامزیدکہناہے کہ اس کام میں کاریگر کی جوکمائی ملتی ہے اس سے ان کاچولہابھی نہیں جلتا، یہی وجہ ہے کہ یہ صنعت زوال پذیرہورہی ہے۔
دستکاروں کا یہ بھی کہناہے کہ پرانے دور میں انہیں اچھی خاصی مزدوری ملتی تھی تاہم آج انہیں وہ مزدوری نہیں مل پاتی۔اسی وجہ سے نئی نسل بھی اس صنعت سے دوری اختیارکرتی ہوئی نظرآتی ہے۔اب انگلیوں پرگنے چنے قدیم اورروایتی دستکارہی اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔تاہم انہیں بھی یہ ڈر ستانے لگاہے کہ کہیں آنے والے وقت میں یہ صنعت دم نہ توڑجائے۔قالین صنعت کونئی جلا بخشنے،جدیدتقاضوں کے عین مطابق بنانے اوردم توڑتی قالین بافی میں نئی روح پھونکنے کے لیے اہم اور موثراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔