شیریں فرہاد
یہ ایک رومانوی لوک داستان ہے کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ تھا اس نے رنگ محل تعمیر کروایا تھا۔ فرہاد نے بڑی خوبصورتی سے رنگ محل تعمیر کیا تھا۔ نیل بادشاہ نے اتنا خوبصورت محل دیکھا تو اسے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی۔نیل بادشاہ نے بڑی خوشی سے فرہاد سے کہا کہ کاری گر تم اپنے منہ سے جو انعام مانگتے ہو مانگو۔فریاد نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے۔میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ موجود ہے۔ دوبارہ بادشاہ نے کہا جو مانگتے ہو مانگو،تو فرہاد نے کہا کے میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب موجود ہے۔ تیسری بار پھر بادشاہ نے کہا جو مانگتے ہو مانگو،فرہاد نے کہا میں جو مانگوں گا دو گے۔ نیل بادشاہ نے کہا ہاں دوں گا۔ فریاد نے کہا مجھے اپنی بیٹی شیریں کا رشتہ دو گے۔ تو نیل بادشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔پھر نیل بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور وزیر کو سب باتیں بتائیں اور کہا کہ اتنا غریب کاریگر میری بیٹی کا رشتہ اتنی ہوشیاری سے مانگ رہا ہے۔وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔فریاد سے کہیں کہ آپ کے رنگ محل کے نیچے سے دریا گزارے، تب میں تمھیں اپنی بیٹی کا رشتہ دے دوں گا۔ فرہاد اپنا ضروری سامان لے کر اللہ کو یاد کر کے پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔ کچھ دن کا سفر طے کرنے کے بعد آخر کار اپنی منزل یعنی پہاڑی تک پہنچ گیا۔ فرہاد نے پہنچتے ہی پہاڑی کو کھودنا شروع کر دیا۔حضرت خوا جہ خضرعلیہ اسلام تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ فرہاد پہاڑی کھود رہا ہے۔ انہوں نے فرہاد سے کہا کے تم یہ کیا کر رے ہو فرہاد نے جواب دیا کہ میں پہاڑی کھود رہا ہوں کیونکہ میں نے نیل بادشاہ سے وعدہ کیا ہے کے تم میرے محل کے نیچے سے دریا گزارو تو میں تمیں اپنی بیٹی شیریں کا رشتہ دوں گا۔حضرت خواجہ علیہ اسلام واپس چلے گئے۔ فرہاد پھر پہاڑی کھودنے لگ پڑا کچھ دن کے بعد خواجہ علیہ اسلام پھر ائے تو فرہاد کوپہاڑی کی کھودائی میں مصروف دیکھا تب حضرت خواجہ علیہ اسلام نے کہا کہ تم ابھی تک نہیں تھکے فرہاد نے جواب دیا کہ عاشق کبھی نہیں تھکتے۔بے شک وہ ساری زندگی کام کرتے رہیں۔ میں نے ضرور نیل بادشاہ کے رنگ محل کے نیچے سے دریا گزارنا ہے۔ خواجہ علیہ اسلام نے فرمایا میں تمہیں اپنا عصا دیتا ہوں اس کی مدد سے تم پہاڑ کو کھودنا شروع کرو اور اس کے پہلی مرتبہ عصا لگانے سے دریا جاری ہو گیا۔ خواجہ علیہ اسلام نے فرمایا کہ تم عصا کو لے کر چل پڑو اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا جہاں تک تم نے یہ دریا پہنچانا ہے۔ یہ تمہارے پیچھے جائے گا۔ نیل بادشاہ کو کسی نے بتایا کے فریاد دریا لے کر آ رہا ہے۔
دوسری ایک روایت کے مطابق بلوچستان کے ماہرین کے مطابق شیریں فرہاد کا مزار بلوچستان کے علاقے بیلا سے تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے،بیلا سے سڑک الٹے ہاتھ کی طرف مڑ جاتی ہے جو بلوچستان کے علاقہ آوارن تک جاتی ہے،راستے میں تین چیک پوسٹ بھی آتے ہیں جہاں آپکو اپنی شناخت کا اندراج کروانا پڑتا ہے اور اپنی منزل کے بارے میں بھی بتانا پڑتا ہے کیونکہ آواران کے لیے ہر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا ہے لیکن شیریں فرہاد کا مزار چونکہ شروع میں ہی ہے اس لیے یہاں تک جانے کی اجازت مل جاتی ہے یہ تیس کلو میٹر کا راستہ دیکھنے کے قابل ہے اس پورے راستے پر انتہائی خوبصورت پہاڑوں کا سلسلہ موجود ہے۔ بلوچستان میں شیر دودھ کو کہا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کی مقامی زبان میں ٹھنڈے پانی کو بھی شیر کہتے ہیں، اس بستی میں ایک پہاڑ تھا جس کے اوپر ایک چشمہ تھا اس چشمے کا پانی پہاڑ کی دوسری طرف گرتا تھا اور بستی میں نہیں پہنچتا تھا اس پانی کو بستی تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ پہاڑ کو چوٹی سے ایسے کاٹا جائے کہ پانی بستی کی طرف بہنا شروع ہوجائے۔
شیرین لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد ایک سنگ تراش تھا فرہاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں کو حاصل کرنے کی اپنی اناء پر قائم تھا۔ فرہاد نے جب شیریں کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگا توشیریں کا باپ جو بستی کا سردار بھی تھا، اس نے انکار کرنے کی بجائے چالاکی سے یہ شرط رکھ دی کہ اگر فرہاد پہاڑ کی چوٹی کاٹ دے تو وہ اپنی بیٹی کی شادی فرہاد سے کرا دے گی. چنانچہ فرہاد نیکڑی محنت سے پہاڑ کو کاٹنا شروع کر دیا۔جب شرط کے مطابق فرہادنے نہر کو تکمیل کے مراحل تک پہنچتا ہے تو بادشاہ پریشان ہو جاتا ہے۔ تو وہ اپنی کنیز کو فرہاد کے پاس بھیجتا جو جاکر فرہاد سے کہتی ہے کہ تم جس کے لیے یہ کشٹ اٹھا رہے ہو، وہ تو اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ فرہاد جب یہ سنتا ہے تو جس تیشہ سے پہاڑ کاٹ رہا ہوتا ہے اسی سے اپنے سر میں دے مارتا ہے اور وہیں مرجاتا ہے وہی کنیز اس کے بعد جب شیریں کو جا کر فرہاد کی موت کی خبر سناتی ہے تو شیریں بھی اپنے آپ کو ختم کرلیتی ہے اور یوں وہ دونوں مر کر اپنے عشق کو امر کر جاتے ہیں جن کی جسدین ابدی مقام پر اکھٹے ہی دفنا دیے گئے تھے جو آج بھی ایک ہی قبر کی شکل میں موجود ہیں۔