گگرال

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق گگرال کے درخت زیادہ تر پنجاب کے کچھ حصوں، بلوچستان اور سندھ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک جنگلی اور خودرو پودا ہے جو سندھ میں صحرائے تھر اور کھیرتھر نیشنل پارک میں پایا جاتا ہے۔ گُگل یا گگرال کا نباتاتی یا انگریزی نام کمیفورہ مکول ہے۔
سندھ کے صحرائے تھر اور کھیرتھر نیشنل پارک میں پائے جانے والے گُگُل یا گگرال کے درخت کو کئی سالوں سے خطرات لاحق ہیں جس کے باعث صوبائی حکومت نے خوشبو دار گوند والے اس پودے کو معدومیت سے بچانے کے لیے درخت کی کٹائی، اس کے گوند کی زیادہ مقدار حاصل کرنے کے لیے اس کے تنے میں کٹ لگانے یا کسی کیمیکل کی مدد سے زیادہ گوند حاصل کرنے اور اس پودے کی تمام حصوں کی مقامی یا عالمی سطح پر غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
کِیکر اور دیگر درختوں کی طرح گُگُل کے درخت سے نباتاتی مرکب نکلتا ہے جو سوکھ کر سخت ہو جاتا ہے، جسے گوند کہا جاتا ہے۔کیکر کی نسبت گگرال کے درخت سے قدرتی طور پر نکلنے والا گوند انتہائی خوشبو دار ہوتا ہے۔ جس کے جلانے سے خوشبودار دھواں اٹھتا اور ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ گگل کے درخت کے تنے سے قدرتی طور پر نکلنے والی خوشبودار گوند کو آیرویدک ادویات کے علاوہ مختلف بیماریوں بشمول موٹاپے، کولیسٹرول اور درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بخار اور دیگر بیماریوں کے لیے گگل کے گوند کی دھونی سے بھی علاج عام ہے۔
کچھ مذاہب میں گگل کی خوشبو دار گوند کو مذہبی رسومات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مت میں ہَونَ یا مقدس مذہبی آگ کے دوران اس گوند کو جلایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ لوہی برتن میں تھوڑی سی آگ میں اس کا گوند ڈال کر دکانوں میں دھونی لگاتے ہیں اور بدلے میں دکاندار کچھ رقم دیتے ہیں۔گگل کا گوند مختلف جراثیم کش ادویات بنانے اور کچھ ممالک میں مچھروں کو بھگانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عمارتی پینٹ میں رنگوں کو نکھارنے کے لیے بھی گُگُل کے گوند کا استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس گوند کی مقامی اور عالمی منڈی میں بڑی مانگ ہے۔ عالمی منڈی میں مانگ کے باعث اس گوند کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
 بارش کے بعد زمیں پر گرے گگل کے بیجوں سے کونپلیں نکلتی ہیں جب کہ مویشی اس کے پتوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ گگل کے ایک بڑے درخت سے ایک مہینے میں تقریباً ایک کلو گوند نکلتا ہے۔زیادہ قیمتوں کے باعث اکثر یہ گوند درخت کے تنے میں چھید لگا کر یا کیمیکلز کی مدد سے حاصل کی جا رہی ہے۔مصنوعی طور پر گوند نکالنے کے لیے ہینگ استعمال کی جاتی ہے لیکن اس وجہ سے درخت جلد ہی سوکھ کر مر جاتا ہے۔
 تھر میں لوگ نوزائیدہ بچوں کے پیٹ کے علاج کے لیے انہیں گُگرال کے گوند کی ستی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوڑوں کے درد کے لیے گُگرال کے گوند کو کھجور میں رکھ کر جلایا جاتا جو مائع بن جاتا ہے جسے درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
گُگرال کے درخت سے قدرتی طور پر گوند بارش کے بعد تھوڑی مقدار میں نکلتا ہے۔ جسے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیمیکل سے نکالے گئے گوند میں وہ افادیت نہیں ہوتی جو قدرتی گوند میں ہوتی ہے۔گگرال سے سال میں دو مرتبہ قدرتی طور پر گوند نکلتی ہے جسے ہزاروں سال سے بخار، پیٹ، موٹاپے، دل کے امراض اور گھریلو ادویات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گگرال کا درخت قدرتی طور پر سال میں دو مرتبہ نومبر دسمبر سے جنوری فروری اور پھر مون سون میں قدرتی طور پر آدھا کلو گوند دیتا ہے۔اس موسم میں ایک جوان اور صحت مند درخت پر گوند خود بخود تنے پر نکل آتی ہے۔ غیر فطری طریقے سے گگرال کے ایک درخت سے ایک کلو تک گوند حاصل ہوتی ہے۔
گگرال کا ایک درخت قدرتی طور پر ایک درخت سے دوسرے درخت یا ایک درخت کی زمین پر گری ہوئی ٹہنی سے دوسرا درخت جڑ پکڑتا ہے۔ یہ آٹھ سے دس سال میں جوان ہوتا ہے اور اس کی زندگی 40 سے 50 سال ہوتی ہے۔ لیکن ایک کیمیکل بھرا انجیکشن لگانے سے یہ چند دنوں میں ہی مر سکتا ہے۔جب گگرال سے غیر فطری طور پر گوند حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے کیمیکل کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تو وہ کیمیکل پورے درخت میں پھیل جاتا ہے اور اس کے پتے اگر مال مویشی کھائیں تو وہ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا درخت جس کو کیمیکل لگایا جائے وہ کچھ عرصے میں مردہ ہوجاتا ہے اور جو مال مویشی اس کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
 ہندو خواتین سال کے کسی مخصوص دن بھائیوکی کلائیوں پر دھاگا باند کر ان کی حفاظت کی دعا کرتی ہیں اور اسی طرح صوبہ سندھ کے علاقے نگرپارکر سے تعلق رکھنے والی کولہی برادری کی عورتوں نے 2009 میں صوبے میں پائے جانے والے خوشبودار گوند والے گُگُل یا گُگرال نامی نایاب درخت کو راکھی باندھ کر اس کی حفاظت کا عہد اٹھایا تھا۔کولہی برادری کی خواتین نے گگل کو اپنا بھائی قرار دے کر اس کی حفاظت کی قسم کھائی اور ایسا اس نایاب درخت کو درپیش خطرات کے باعث کیا گیا تھا اور اس کو’’راکھی تحریک“ کا نام دیا گیا تھا۔

Daily Program

Livesteam thumbnail