ڈریگن ٹری
ڈریگن ٹری میں سے خون کی رنگت جیسا سرخ محلول نکلتا ہے جس کی وجہ سے اسے ڈریگن بلد ٹری کہا جاتا ہے۔یمن کا سقطری جزیرہ جو اپنے صدیوں پرانے چھتری کی شکل کے ڈریگن درختوں کی وجہ سے مشہور ہے۔یہاں سے350 کلو میٹر کے فاصلے پر بحیرہ عرب اور افریقہ کے درمیان فیروزی سمندروں میں موجود سقطری جزیرہ 50 ہزار سے زائد افراد کا گھر ہے۔2008 میں یونیسکو نے اسے دنیا کے سب سے زیادہ حیاتیاتی تنوع سے مالا مال علاقوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ان قدیم درختوں کے جنگلات شدید طوفانوں کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ نوخیز پودوں کو بکریاں نگل لیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ حیاتیاتی مقام اب صحرا میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ماحولیاتی بحران کی وجہ سے بھی یہ درخت خطرے میں ہیں۔
اس جزیرے کے رہائشی ڈریگن بلڈ ٹری کو لکڑی حاصل کرنے کے لیے نہیں کاٹتے کیونکہ یہ بارشوں کا سبب بنتے ہیں اور ان سے نکلنے والا سرخ محلول ادویات بنانے میں کام آتا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ، طوفان اور مویشیوں کی چرائی کی وجہ سے یہ درخت چند دہائیوں میں ہی ختم ہو جائیں گے۔بکریاں پودے کھا جاتی ہیں اس لیے نئے اگنے والے پودے صرف انہی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں تک ان کی رسائی نہ ہو۔
قدرت کے تحفظ کے عالمی ادارے(آئی یو سی این) نے خبردار کیا ہے کہ سقطری اس وقت انتہائی خطرے میں ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورتحال تیزی سے بگڑ سکتی ہے۔
تاہم کوشش سے اس کے بُرے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور سقطری کے کچھ رہائشی اس جزیرے کے تحفظ کے لیے وہ سب کر رہے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔