چمگادڑ

چمگادڑجسے عام طور پر پرندہ سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں ایک اڑنے والا ممالیہ جانور ہے۔ اگرچہ اس کے پَر ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں پرواز کرتی ہے، لیکن وہ انڈے دینے کے بجائے بچوں کو جنم دیتی ہے اور انہیں دودھ پلاتی ہے۔ چمکادڑ کا ذکر سنتے ہی ذہن میں اندھیرے غاروں، الٹی لٹکی ہوئی شکلوں اور رات کے پراسرار مناظر کا خیال آتا ہے، لیکن اس کے وجود میں ایک ایسا حیران کن نظام چھپا ہے جو سائنس دانوں کو بھی حیرت میں ڈال چکا ہے۔ اس کی سب سے منفرد خصوصیت اُس کا وہ قدرتی ریڈار ہے جسے سائنسی زبان میں ”اکولوکیشن“ کہا جاتا ہے۔ یہ صلاحیت چمکادڑ کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ گھپ اندھیرے میں بھی پوری مہارت کے ساتھ اُڑ سکے، شکار تلاش کر سکے اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہوا میں اپنا راستہ بناتی چلی جائے۔
یہ سوال کافی عرصے تک ماہرین کے ذہنوں میں رہا کہ آخر وہ کون سا نظام ہے جو چمگادڑ کو مکمل تاریکی میں دیکھنے کے بغیر راستہ ڈھونڈنے میں مدد دیتا ہے۔شروع میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ شاید اس کی بینائی غیرمعمولی ہے، لیکن پھر رفتہ رفتہ سائنسدانوں  نے دریافت کیا کہ چمکادڑ دیکھنے کے بجائے سننے پر انحصار کرتی ہے۔ وہ خاص قسم کی آوازیں خارج کرتی ہے، جو کہ اتنی تیز ہوتی ہیں کہ انسانی کان انہیں سْن نہیں سکتے۔ جب یہ آوازیں کسی شے سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو چمکادڑ انہیں سنتی ہے اور یوں اندازہ لگا لیتی ہے کہ سامنے کوئی رکاوٹ ہے یا شکار۔ یہ عمل بالکل ایسے ہے جیسے کسی جگہ آواز دے کر اس کی گونج سے اندازہ لگایا جائے کہ وہ جگہ کھلی ہے یا بند۔
 ”اکولوکیشن“ ایک ایسا نظام ہے جو آج کے جدید ریڈار ٹیکنالوجی سے بھی زیادہ پیچیدہ اور موثر ہے۔ ماہرین حیاتیات نے برسوں کی تحقیق کے بعد یہ جانا کہ چمگادڑ اپنے منہ یا ناک سے مخصوص فریکوئنسی کی آوازیں نکالتی ہے، اور جب یہ آوازیں آس پاس کی اشیاء سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو اس کے کان ان کا انتہائی باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اس سے چمگادڑ نہ صرف اشیاء کا فاصلہ معلوم کر لیتی ہے بلکہ ان کی ساخت، حرکت اور رفتار تک کا اندازہ لگا لیتی ہے۔
ہمارے دلوں میں چمگادڑ کے ڈر سے منسلک بہت سی باتوں کا ذمہ دار ڈریکولا ہے۔ڈریکولا کے ساتھ چمگادڑوں کی ڈراؤنی نسبت کے سبب بہت سے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ انھیں انتہائی خطرناک مخلوق سمجھتے ہیں جو ڈراؤنے خوابوں کا سامان بنتی ہے۔
چمگادڑوں کی چودہ سو اقسام ہیں، ان میں سے تین اقسام ایسی ہے جو انسانوں اور جانوروں کا خون بھی چوستی ہیں جو انسانیت کے لیے خطرناک ہے، ان کی عمر دس سے اکتیس سال تک ہوتی ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ان کے منہ میں ایسا مادہ ہوتا ہے جو ایک چیخ کے آواز نکالتی ہے جس سے انھیں فاصلہ متعین کرنے میں مدد ملتی ہے، اسی خاصیت کی بدولت وہ راستے کا تعین کرتی ہیں، چمگا دڑ کے آواز نکالنے کے عمل کو ”چرک“کہا جاتاہے۔ماہرین کے مطابق شیطانی کاموں کے لیے بھی ماضی میں چمگادڑوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، مگر اب یہ سلسلہ معدوم ہو گیا ہے۔
کیڑے مکوڑوں کو کھانے والی چمگادڑوں کو ماحول دوست اور انسان دوست بھی مانا جاتا ہےِ، خاص طور پر آم اور کیلوں کی فصلوں کی پولی نیشن کے لیے یہ بہت اہم ہے اس کے علاوہ جنگلی کیڑوں سے نجات دلانے میں معاون رات کی یہ دلچسپ مخلوق ماحولیات کا لازمی حصہ ہے۔چمگادڑ گھونسلا نہیں بناتی بلکہ پرانی عمارتوں، غاروں اور درختوں سے اپنے پنجے کے بل لٹک کر زندگی گزارتی ہے۔چمگادڑ پرندہ نہیں اصل میں جانور ہے، جانوروں کی طرح بچے دیتی ہے اور انھیں دودھ پلاتی ہے، بصارت سے محروم ہونے کے باوجود یہ بڑی مہارت سے شکار کرنے کا فن رکھتی ہے۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث بنتے شہر اور زرعی زمینیں ختم ہونے کے باعث چمگادڑ شہروں کی طرف نقل مکانی کررہی ہے۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail