چلتے ہوتو کشمیر کو چلیئے(سیر کی روداد)
کہا جاتا ہے کہ سیر وتفریح بیمار کو بھی شفا یاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،گرمیوں کے پسینے ،سخت گرمی اور لو سے چند ایام چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ،،جگری یاروں ،،کے ہمراہ سیر کی منصو بہ بندی کی گئی رختِ سفر باندھا اور( ہولیئے نو دو گیا)اپنے آبائی علاقے حویلی لکھا سے فصل آبا د میں چند منٹوں کے لئے پہلا پڑاوٗ تازہ دم ہونے کے بعد موٹر وے سے شہرِ (اِمام بری رح ،پیرمہر علی شاہ رح ) کی جانب چل دیئے شب بھر کی تھکا دینے والی مسافت کے بعد اعلی الصبح وفاقی دارلحکومت پہنچ کر اسلام آباد سے ناشتہ کرنے کے بعد مظفر آباد کے لئے سفر شروع کیا گیا منصوبہ بندی کے مطابق مظفر آباد پہنچ کر رات کو سودن گلی آرام کرنے کے لئے رُکے ہی تھے کہ موسلادھار تیز بارش اور شدید ثالہ باری نے آن گھیر ا کہ پہاڑوں پہ جانے اور علاقے کی پیدل سیر کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا دوستوں کے ہمراہ ہنسی مذاق اور علاقے بارے سیر حاصل گفتگو ہوئی اور رات بیت گئی صبح ہوئی تو پلان کے مطابق گنگا چوٹی گئے جو کہ فور ویلر جیپ کا راستہ اور مقامی ڈرائیور حضرات کی مہارت و بہادری کی بے مثال والا تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا خطر ناک سفر ہے ،کمزور دل اِس چوٹی پہ جانے کا تجربہ نا ہی کریں تو بہتر ہے لیکن جو ایک بار اِس پُرفضا مقام پہ پہنچ گیا وہ پھر اسی کا ہوکہ رہ گیا پہاڑوں کے دامن میں پرندوں کی آوازیں اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ٹھنڈی ہوائیں اور پہاڑوں سے گرنے والے پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنے ،پہاڑی بھیڑوں اور بھیڑوں کے ساتھ مقامی زبان میں گیت گاتے لوگ تاحد نگاہ خوبصورت قدرتی ماحول انتہائی مشکل سے اِس مقام تک پہنچنے کی ساری تھکاوٹ اور ڈرو خوف سارا ختم اپنے دوستوں کے ہمراہ کچھ وقت اِس مقام پہ اٹکلیاں اور ہلہ گھلہ کرنے اور دورِ حاضر کا لازمی ترین جزو تصور کیا جانے والا عمل سیلفیاں اور تصاویر اتارنے کے بعد واپسی کی راہ لی کہ آگے منصوبہ بندی کے مطابق ٹرپ کی قیادت سنبھالنے والے جگری یاروں،چوہدری ریاض انور،اطہر فاروق اوروقاص لاہوری جوکہ ناصرف ہمارے ٹرپ کی قیادت کررہے تھے بلکہ ہم سب کی الٹی سیدھی باتیں سننے اور برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ بطور ڈرائیور اضافی چارج بھی انہیں تینوں کے پاس تھا، کوحالہ بریج،دھانی واٹر فال،آٹھ مقام، کڈن شاہی،اڑنگ کیل،اڑن فال،کیرن ،اپر نیلم،شاردہ،کیل،تاوٗبٹ،کٹن واٹر فال،کشمیر آب شارکے لئے چل دیئے یوں تو تمام دوستوں نے تقریباً تمام مقامات پہ ہی خوب مزے کیئے مگر اِس سارے سفر میں تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی پہ خطرناک ترین راستوں کو طے کرتے پہاڑوں کے دامن کو چیرتے خطرناک ترین موڑ اور دریا کی تیزترین لہروں، آبشاروں کی ساڈھے تین گھٹنوں کی مسافت طے کرتے ہی تاوٗبٹ منزل مقصود پہ جاکر ہر سو خوب مزے اور زندگی کے لمحات کو یادگار بنانے کے لئے کئی یادیں قائم ہوئیں جن میں سے ایک یاد یہ بھی رہے گی کہ گھوڑے والے کو پچاس روپے دیکر موت کے قریب جاتے جاتے بچا کیونکہ جب سیلفی لینے کے لئے گھوڑے کے اوپر سوار ہوا تو گھوڑا بے قابو ہوکر کئی فٹ نیچے گہرائی کی جانب جانے ہی والا تھا کہ وقاص لاہوری اور گھوڑے کے مالک نے بامشکل گھوڑے پہ قابو پایا اور میری بھی سانس میں سانس آئی مگر اِس سارے واقع میں یہ بات ابھی تک بھی مجھے جب یاد آتی ہے تو بے ساختہ ہنسی ہے کہ رکتی ہی نہیں کہ گھوڑے کو (جپھی،بگل گیر) تو ایسے ہوا کہ جیسے اِس سے بہت پورانا یارانہ ہوخیر موت وحیات کی کشمکش میں انسان کیا کیا کر گزرتا ہے اِس اچانک کی جانے والی (واہ حیاتی) سے اندازہ کرلیں تاوٗ بٹ کے اِس بلند ترین مقام تک پہنچتے پہنچتے کئی دوستوں کی طبیعت خراب ہوئی اتنی طبیعت خراب ہوئی کہ اب سارے دوست انہیں ہر بات پہ یہ کہتے ہوئے دیر نہیں کرتے کہ ہمارا کہا مانتے ہیں یا پھر لے چلیں تاوٗبٹ ۔آزاد کشمیر کے لوگ انتہائی محنتی بہادر اور وفا شعار ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز بھی ہیں اور ملک کے طول وعرض سے آنے والے لوگوں کی ہر لحاظ سے خوب قدر وبے حد عزت کرنا جانتے ہیں ،تاوٗبٹ کا انتہائی پُرخطر سفر شاید اس لئے بھی زیادہ خطر ناک ہے کہ متعلقہ انتظامیہ نے تقریباً اِس مقام تک جانے والی سڑک پہ حفاظتی انتظامات نہیں کررکھے نا خطرناک ترین موڑوں پہ گہری کھائیوں سے بچاوٗ کے لئے کوئی حفاظتی جنگلوں کا وجود ہے ناہی سڑک کے گرد کہیں پہ کوئی حفاظتی اقدامات بروئے کار لائے گئے کہ خدانخواستہ ٹریفک حادثہ کے دوران کم از کم گہری کھائیوں اور خوف ناک دریا کی لہروں کی نذر ہونے سے تو بچا جاسکے ،سیر وسیاحت کے شوقین افراد معزز ومحترم قارئین کرام بیرونی خوبصورت جگہوں اور سیاحتی مقامات بارے باتیں اور تعریفوں کے پُل بعد میں باندھیں پہلے زرا میرے اور آپ کے ملک کے خوبصورت مقامات کی سیر کو ایک بار ضرور جائیں کہ میرے ملک جیسی قدرتی خوبصورتی شاید آپ کو کہیں نذر نا آئے،خوش رہیں،آباد رہیں۔
آمین ثم آمین پاکستان زندہ بار ۔فواج پاکستان پائندہ باد