چاند کے گرد ہالہ
جب سے انسانی شعور نے ترقی کی ہے اسے چاند کے ساتھ دوستی ہمیشہ عزیز رہی ہے۔ چاند جو کہ ہماری زمین سے سورج کے بعد سب سے زیادہ روشن نظر آتا ہے کہ چاند کے بعد سب سے روشن ستارہ ”زہرہ“ ہے جسے زمین سے دیکھا جا سکتا ہے۔ چاند کا زمین سے فاصلہ 3 لاکھ 84 ہزار 00 کلومیٹر ہے۔جو کہ نظامِ شمسی کے باقی سیاروں کے مقابلے میں زمین سے قریب تر تسلیم کیا جاتا ہے۔ماضی میں لوگ چاند اور ستاروں سے اپنی سمت معلوم کرنے کا کام بھی لیا کرتے تھے۔ چاند کی جسامت زمین کے مقابلے میں 27 فیصد ہے۔ یہ زمین کے گرد اپنا ایک چکر تقریباً 27.3 دن میں مکمل کر لیتا ہے۔
سورج سے روشنی لے کر بظاہر روشن نظر آنے والا یہ چاند ہوا اور پانی جیسے نعمتوں سے محروم ہے۔ اس کے موسم شدید گرمی میں 100 سینٹی گریڈ تک اور شدید سردی میں منفی 173 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ زمین کی کشش 9.8 میٹر فی مربع سیکنڈ کے مقابلے میں اس کی کشش 1.622 میٹر فی مربع سیکنڈ بنتی ہے۔گویا کہ زمین پر 10 کلو وزن رکھنے والی چیز کا اگر چاند پر وزن کیا جائے تو وہ ڈیڑھ کلو سے کچھ زیادہ ہوگا۔ ہوا موجود نہ ہونے کے سبب چاند پر آواز کا سفر بھی ممکن نہیں ہوتا۔چاند ہمیشہ ہی سے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔شعرا نے بھی اسے اپنی شاعری میں خاص مقام عطا کیا ہے۔
چاند کی روشنی ہماری آنکھوں تک برفانی ذرات (آئس کرسٹلز) سے ہوکر پہنچتی ہے اسی لئے چاند کے گرد جگمگاتا ہالہ نظر آتا ہے۔چاند کے گرد یہ ہالہ 22ڈگری چوڑا ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر مقام پر یکساں ہوتا ہے۔۔ گاؤں میں لوگ عموماً کْھلی فضا میں سونا پسند کرتے ہیں۔چھت یا گھر کے صحن میں سونا ان کی عادت ہوتی ہے اور وہ مکمل چاند کو دیر تک تکتے رہتے ہیں۔ شہر میں یہ عادت کم ہی لوگوں میں نظر آتی ہے البتہ وہ بھی مکمل چاند کی خوبصورتی کے گرویدہ ہوتے ہیں۔ اگر کبھی آپ مکمل چاند کو دیکھیں تو روشنی کا ایک بڑا ہالہ اس کے اردگرد نظر آئے گا۔مگرکیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ جگمگاتا دائرہ چاند کے گرد کیوں ہوتا ہے؟یہ ہالہ دراصل برفانی ذرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔چاند کے گرد روشنی کا یہ ہالہ نظر کی کمزوری کا اشارہ نہیں بلکہ برفانی ذرات یا آئس کرسٹلز کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ننھے برفانی ذرات چاند کی روشنی کو منتشر کرتے ہیں۔یہ برفانی ذرات بادلوں کی ایک قسم سیرس میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر خالص برف کے بادل ہوتے ہیں جو سطح زمین سے ۳۱میل بلندی پر موجود ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق چونکہ یہ بادل بہت اونچائی پر ہوتے ہیں اور بہت زیادہ پتلے ہوتے ہیں تو انہیں کھلی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔چاند کے ہالے کا حجم ہمیشہ یکساں ہوتا ہے، چاہے آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں یا موسم جیسا بھی ہو۔اگر آپ اس کی تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ آنکھوں کو نظر آنے والا ہالہ ۲۲ ڈگری چوڑا ہے اور ایسا برفانی ذرات کی ساخت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ٍ یہ برفانی ذرات شش پہلو (ہیگزا گونل شیپ)ہوتے ہیں جو مخصوص طریقے سے روشنی کو منعکس کرتے ہیں۔جب روشنی ان ذرات کے کسی ایک کونے میں داخل ہوتی ہے تو وہ کسی حد تک منتشر ہوکر پھیلتی ہے، جب رومزشنی دیگر کونوں میں پہنچتی ہے تو وہ ید منتشر ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ ۲۲ ڈگری کے مکمل دائرے کی شکل میں نکلتا ہے۔آسان الفاظ میں چاند سے نکلنے والی روشنی ہماری آنکھوں تک برفانی ذرات سے ہوکر پہنچتی ہے اسی لئے ہمیں چاند کے گرد جگمگاتا ہالہ نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ مقامات پر یہ دائرہ ۴۶ ڈگری کا بھی ہوتا ہے جو بہت بڑا ہوتا ہے اور آدھے آسمان کو کور کرتا نظر آتا ہے۔ہالہ صرف چاند ہی کا نہیں ہوتا بلکہ ایسا سورج کے اردگرد بھی ہوتا ہے مگر اسے دیکھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ سورج بہت روشن ہوتا ہے۔ دیگر سیاروں جیسے مریخ کے گرد بھی بادلوں کی وجہ سے ہالہ نظر آتا ہے۔