پاکستان کا آخری گاؤں اسکولے

        

 سکردو سے ہو تے ہوئے کے ٹو اور کنکورڈیا کے راستے میں پڑنے والے آخری گاؤں کا نام  اسکولے ہے۔  یہاں کے لوگ اردو سے زیادہ انگریزی زبان سے واقف ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ کنکورڈیا اور بالتورو جانے والے کوہ پیما انگریزی بولتے ہیں تو بطور گائیڈ اور پورٹر مقامی لوگ انہی کی زبان سیکھ جاتے ہیں۔اس گاؤں کے لوگوں کی روزی کا انحصار کوہ پیماؤں اور مہم جوؤوں پر ہے۔
اس گاؤں کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے اکثر دیہاتی لوگوں نے برانڈڈ لباس پہنا ہوتا ہے اور ان کے جوتوں کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ہر سال یہاں سینکڑوں کی تعداد میں مہم جو آتے ہیں جو قیمتی ساز و سامان سے لیس ہوتے ہیں۔ یہاں کا رواج ہے کہ یہ مہم جو اور کوہ پیما کامیاب لوٹیں یا ناکام، وہ اپنا سامان وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔مقامی لوگ یہ مہنگا ساز و سامان خود استعمال کرتے ہیں، یا پھر کچھ عرصے بعد یہ سکردو کے بازاروں میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لیے آپ کو وہاں ملبوسات، خیمے، آئس ایکس، جوگرز اور جیکٹیں بے حد سستے داموں مل جاتی ہیں، جو بڑے شہروں میں اول تو ملیں گی ہی نہیں اور اگر مل بھی گئی تو ان کی قیمتیں ہوش ربا ہوں گی۔
اسکولے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کا آخری گاؤں ہے، لیکن یہاں پہنچ کر کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ تہذیب کا آخری گاؤں ہے، کیونکہ برالدو کنارے آباد اس بستی کے لوگ کراچی اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔
 اس گاؤں میں ایک نجی لائبریری بھی ہے۔ جہاں کتابیں پڑھی جاتی ہے۔۔ مہم جو آخری بار اسی انسانی آبادی کو دیکھ کر دنیا کی بلند ترین چار چوٹیوں کی جانب چڑھتے ہیں اور یہی تہذیب کے ٹو تک اپنے نشان چھوڑتی ہے۔
قیصر گراونڈ سے لے کر کنکورڈیا تک خیمہ بستیوں میں آباد عارضی زندگی کا صرف ایک ہی کلچر ہے اور یہ پہاڑی کلچرکہلاتاہے۔ مہم جو جب تک پہاڑوں کے سفر پر ہوتے ہیں امیر و غریب کا رہن سہن اور کھانا پینا ایک جیسا ہوتا ہے۔یہاں سے واپس مہذب دنیا میں جانے والے پھر طبقات میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
 قدرت نے برف زاروں، بلند چوٹیوں، جھیلوں اور آبشاروں کے حوالے سے پاکستان کو دنیا کے کسی بھی ملک سے بڑھ کر نوازا ہے، یہ اب ہمارا مقدر ہے کہ ہم اس فطری انعام کو کیسے سنوارتے ہیں۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail