وادی سوات ایک شہزادی
تحریر۔ ضحی سید
یوں تو ہمارا ملک پاکستان اﷲ کی بنائی اس دنیا میں سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔لیکن اﷲ تعالی نے پاکستان کے کچھ علاقوں کو زمین پر ہی جنت بنا دیا ہے۔ ان میں ایک خوبصورت وادی‘‘سوات‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دنیا بھر سے لوگ وادی سوات میں تفریح کے لئے آتے ہیں۔گرمیوں میں یہاں کا موسم انتہائی ٹھنڈا جب کہ سردیوں میں سفید برف سے ہر حسین منظر چھپ جاتا ہے۔وادء سوات میں خوب صورت پہاڑ، آبشاریں جھیلیں، درخت، جنگل، دریا اور پھل پھول کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
یہ گرمیوں کے دن تھے جب میں اپنی بجیا سے مری جانے پے اصرار کر رہی تھی۔ کلر کہار تو بہت دفع جا چکی ہوں اب میرا دل چاہتا تھا مری کے پہاڑ اور سبزہ دیکھوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا بجیا مجھے مری سے بھی بہت آگے لے جائے گی۔مجھے گھومنے کا بہت شوق ہے اور بجیا مجھے بہت گھماتی ہے۔ کہیں کانفرنس ہو سمینار ہو۔ کسی کی بک لانچنگ ہو بجیا ہمیشہ مجھے ساتھ رکھتی ہے۔چار جولائی کو بجیا کے دوستوں کی ایک ٹیم سوات جا رہی تھی۔ بجیا نے مجھے خوش خبری دی کہ میں بھی اس ٹیم کے ساتھ جاؤں گی۔ ایک بہت بڑی تنظیم کے چند لکھاریوں کے ساتھ میں سوات جا رہی تھی۔ اس تنظیم کا نام APWWA تھا۔اور اس تنظیم میں شامل سب لوگ بہت اچھے تھے۔ سب انکلز اور سب لالاؤں نے میرا بہت خاص خیال رکھا تھا اور مجھے بہت پیار دیا۔ مگر علی انکل اور فاطمہ لالہ نے مجھے ایکسٹرا توجہ دی۔ میری دوستی فلک اور مہوش لالہ کے ساتھ تھی۔ اور میں ان کے ساتھ مشاعروں میں حصہ بھی لیتی تھی: ہم لوگ سوات پہنچے تو سوکھے پہاڑ مجھے اچھے نہیں لگے۔ مگر بجیا نے بتایا ہم ابھی بہت آگے جائیں گے۔اور آگے ہم نے دریائے سوات دیکھا تھا۔ ہم مدین اور بحرین بھی گئے تھے۔مگر کالام جاتے ہوئے بجیا نے رونا شروع کر دیا تھا۔ ویسے تو میں بہت خوش تھی مگر جب بجیا کو روتا دیکھا تو مجھے بھی سخت رونا آ گیا۔ مجھے پہاڑ اور خراب رستے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا مگر جب بجیا خوف سے رونے لگی تو میں بھی ان کے گلے لگ کے رو پڑی تھی۔ تب سب لوگوں نے ہمیں چپ کروایا اور تسلی دی کہ ہم جلد پہنچ جائیں گے۔ کالام بہت دور ہے اور رستہ بھی اچھا نہیں ھے مگر کالام پہنچ کر انسان سب غم اور خوف بھول جاتا ہے۔ہم نے کالام میں بہت مزہ کیا اور کالام مال روڈ کی ساری دوکانوں میں گئے۔ میں نے بجیا سے بولا مجھ ڈائری لے دو میں اس پے سفر نامہ لکھوں گی مگر بجیا نے مجھے آنکھیں دکھا کر چپ کروا دیا اور بولی۔’’میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ چپ کر کے ونڈو شاپنگ کرو’’اور میں چپ اور اداس ہو گئی تھی۔ پھر ہم دریا کے کنارے چلے گئے تھے اور وہاں دریا کی خوفناک آواز اور لہروں کو دیکھ کر میں دور دور ہی رہی۔بجیا مجھے گھسیٹ کے پانی کے پاس لاتی اورمجھے زور زور سے چٹکے کاٹ کے کہتی‘‘ چپ کر کے فوٹو بنوا ورنہ چٹنی بنا دوں گی۔’’سارے سفر میں بجیا مجھے چٹکے کاٹ کاٹ کے فوٹو بنواتی رہی تھی مجھے تو ویسے تصویر بنوانے کا شوق نہیں ہے میری امی جان کہتی ہیں۔ تصویر بنانے والا گنہگار ہوتا ہے۔ اور قیامت والے دن بتوں میں جان بھی ڈالنی پڑے گی۔واپسی پر ہم نے چپلی کباب کھائے تھے اور یہ بہت ہی مزیدار تھے۔مجھے بہت زیادہ نیند آ رہی تھی اور میں باغ بالا جا کر جلدی سو گء تھی۔ صبح جب بجیا نے مجھے رولا رولا کے جگایا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک سرپرائز میرے لئے ہو گا: مجھے باغ بالا میں ایک پیاری سی صبح علی انکل نے وہ ہی خوبصورت ڈائری گفٹ کی تھی جسے میں خریدنا چاہتی تھی اور جسے بجیا نے لے کر نہیں دیا تھا۔اس ڈائری کو دیکھ کر مجھے ایسی خوشی ملی تھی جو میں بیان نہیں کر سکتی۔ یہ ڈائری پورے سفر میں میرے فر والے بیگ میں رہی۔
کالام سے ہم واپسی پر چشمہ آب شفا پے رکے تھے اور چئر لفٹ پے بیٹھ کر دریا کراس کیا تھا۔ یہ مزے کا تجربہ تھا۔بجیا نے مجھے افغانی پلاؤ بھی لے کر دیا تھا جو مجھے بریانی جیسا نہیں لگا تو میں نے تھوڑا سا کھایا اور بجیا نے تب بھی مجھ پے بہت غصہ کیا تھا’’کھانا ہوتا نہیں ضائع کرنا ہوتا ہے گھر جا کے چٹنی بناؤں گی تمہاری ادھر یتیم بن کے بیٹھ جاتی ھو زرا کسی بات پے ڈانٹوں تو۔’’واپسی پر ہمیں کالام کے رستے پے ڈر نہیں لگا تھا مگر ایک جگہ ہماری گاڑی کھائی میں گرنے لگی تھی اور یہ بہت خوفناک تھا۔ پہاڑوں کے سفر میں یہ سب تو ہوتا ہی ہے پر ہماری بجیا تو ڈرائیور انکل کا سر کھا دیتی تھی۔‘‘ آہستہ چلائیں۔ دیکھ کے چلائیں۔ آپ ہمیں گرا کے ہی چھوڑیں۔ ہمیں تو اتار ہی دیں‘‘۔ اورہماری بجیا کوئی سو دفع مشکل راستوں پے زبردستی گاڑی رکوا کر اتری اور مجھے بھی اتروا لیا۔: بحرین میں ہم بہت سارے پہاڑی گھروں میں بھی گئے تھے اور بجیا ان کے رہن سہن اور مشکلات کے بارے میں بہت سارے سوالات کرتی رہی تھی۔ اور میں تب تک سیبوں کے درخت دیکھتی رہی جن پر چھوٹے چھوٹے سبز اور پیلے سیب لگے تھے۔واپسی پر ہم دریا پے گئے تو فلک اور مہوش لالا کو ساتھ نہیں لیا تب وہ ناراض ہو گئی تھیں۔ پھر سب لوگ ان کو مناتے رہے۔ہم نے بحرین میں شاپنگ بھی کی اور گفٹ بھی سب کو دئیے۔ بجیا بوڑھے پٹھان کے گیت سننے نیچے چلی گئی تو میں فلک اور مہوش لالہ کے ساتھ مشاعرہ کیا۔ بحرین سے ہم گبین جبہ گئے تھے۔ راستے میں بہت مزے مزے کے ایڈونچرز کئے۔ ہم ٹرک پے بیٹھ کر اونچے پہاڑوں پے گئے۔ راستے میں نوید انکل اونچی آواز میں گانا گاتے تھے۔‘‘ رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے’’
گبین جبہ جاتے ہوئے ہم ایک پہاڑی گاؤں میں رکے تھے یہاں بجیا نے ان لوگوں سے انٹرویو لیا تھا پھر ہم جنگل کی طرف پھل توڑنے بھی گئے تھے۔یہ جگہ بہت خوبصورت تھی۔یہاں پے میری اوربجیا کی لڑائی بھی ہو گئی تھی اور پھر مجھے علی انکل نیبہت منایا تھا۔ میں بجیا سے ناراض تھی اور میں نے تب تک صلح نہیں کی تھی جب تک یہ نالے میں نہیں گر گئی تھی۔: ہم آڑو کے باغ میں آڑو بھی توڑتے رہے اور چھوٹے چھوٹے جاپانی پھل بھی دیکھے۔ اﷲ تعالی نے چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں میں بھی پھل اگائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اﷲ کی قدرت پے پیار آتا رہا۔
مالم جبہ کی طرف سفر اس لئے مشکل تھا کہ ہم رستہ بھٹک گئے تھے گو کہ علینہ لالہ گوگل میپ کھول کے فرنٹ سیٹ پے بیٹھی سارا رستہ سمجھا رہی تھیں مگر پھر بھی ہم مشکل رستے میں پھنس گئے تھے۔اور تب بجیا ہماری چیختے ہوئے گاڑی سے اتر گئیں۔ گاڑی ایک مرتبہ پھر کھائی کی طرف الٹنے لگی تھی۔ سب لوگ دھکا لگا کر گاڑی کو نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پھر تو ہم سب پیدل ہی چلتے رہے اور سب کی بریکیں فیل ہو گئیں۔ ہم پہاڑوں پے بھاگے چلے جا رہے تھے اور ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے تھے۔
پھر بجیا ہر بندے کو روک روک کے پوچھتی تھی اس طرف اور بھی پاگل آتے ہیں یا ہم ہی پاگل خوار ہونے کے لئے آ گئے ہیں۔یہاں پے ایک بات بتاتی چلوں۔ ادھر کی پولیس بہت اچھی ھے۔ زاہد انکل پریس کارڈ دکھاتے تو پولیس اور بھی احتراما پیش آتی اور چائے کھانا تو ہرپولیس والے نے پوچھا تھا۔شاید یہاں کی پولیس پورے پاکستان میں سب سے اچھی پولیس ہے۔مالم جبہ میں ہمارا ھوٹل مجھے پسند نہیں آیا تھااوپر سے بھوک اتنی شدید تھی۔ اس ھوٹل کے بیسمنٹ میں بہت سارے مزدور بھی رہتے تھے۔ خان بابا ان کے لئے چاول لے کے جا رہے تھے کہ بجیا نے ان کی پرات پکڑ لی اور چکھتے چکھتے ڈھیر سارے رائس ہم نے کھا لئے۔ خان بابا توبس ہنستے رہے تھے۔ علی انکل اور فیضہ، فلک اور مہوش لالا نے ہمیں ڈرانے کے لئے کہا کہ سنا ہے اس علاقے کو وادء جن بھی کہتے ہیں۔ اپنی طرف سے انہوں نے ڈرانے کی پوری کوشش کی تھی۔ مگر بجیا ہماری چھپکلیوں اور مینڈکوں سے بے شک ڈرتی ھے مگر جنوں سے ہر گز نہیں ڈرتی سو یہ ڈرامہ فلاپ ہو گیا تھا۔بجیا نے کہا وادی جن تو مدینہ میں ھے یہاں کیسے آ گئی۔
اس رات کھانا احسن انکل نے بنایا اور میں انتظار کرتے کرتے سو گئی تھی اگلی صبح ہماری واپسی تھی۔ ہم نے بجیا کے بھوک بھوک چلا چلا کر کان کھا رکھے تھے۔یوں علی انکل نے پرل ریور کے مقام پر گاڑی رکوا دی تھی۔ یہ بہت خوبصورت جگہ تھی۔ ہم نے یہاں ناشتہ کیا اورناشتے سے پہلے شعرو شاعری کی تھی۔ بجیا تب تک لاہور کی ایک فیملی سے باتیں کرتی اور فوٹو بنواتی رہی۔یہاں پر کچھ لوگوں نے مس انڈرسٹینڈنگ پھیلا کر مہوش لالا کو ڈسٹرب بھی کر دیا تھا۔ وہ تو گاڑی میں سب باتیں کلئیر ھوئیں تو مہوش لالا کی غلط فہمی دور ہو گئی تھی۔ میں کہنا چاہوں گی کہ سنی سنائی باتوں پے یقین کرنا ایک حماقت ہے۔ اور یہ کہ مہوش لالا اور فلک لالا تو گروپ کی جان ھیں۔ اور بدگمانی پھیلانا ایک جرم ہے۔ ہمارا یہ سفر اس خوب صورت موڑ پے احتتام پذیر ہوتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ ہمارا ملک بہت پیارا ہے مگر حکومتوں کوچائیے اس پیارے ملک کو سنوارنے کی طرف توجہ دیں اور وادء سوات جسے میں‘‘ شہزادی سوات’’کہتی ہوں کی تعمیرترقی کے ساتھ علاقہ مکینوں کی فلاح کے لئے کام کریں۔ اس لئے کہ شہزادی سوات جیسی کوئی وادی کسی اور خطے میں نہیں ھے-