نیپال میں پرْاسرار غاروں کا معمہ
نیپال میں واقع ہمالیائی خطے میں ہزاروں برس پہلے انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی پُراسرار غاروں کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ دس ہزار کے لگ بھگ غاریں زمین سے ایک سو پچپن فٹ کی بلندی پر بنائی گئی ہیں۔ ان غاروں میں داخلے کے لئے چٹان کے اوپر ایک عمودی سرنگ بنائی گئی ہے۔ یہ غاریں چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں اور اکثر غاروں کا دہانہ چٹان کے سرے پر ہے۔ ان غاروں سے قدیم دور کی بنائی ہوئی تصاویراور آلات بھی ملے ہیں۔
یہ ایک معمہ ہے کہ ان غاروں میں کیسے داخل ہوا جاتا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ یہ معمہ حل نہیں کر پائے کہ ان کے بنانے کا کیا مقصد تھا اور ان کی تکمیل کب ہوئی۔
یہ غارنیپال Nepal کے دور دراز شمال وسطی علاقے میں، کھٹمنڈو کے شمال مشرق میں 250 کلومیٹر کے فاصلے پر مُستانگ یا مستھنگ Mustangنامی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ہمالیہ کے شمال میں سطح سمندر سے 14,000 فٹ کی بلندی پر واقعہ اس پہاڑی سلسلہ پر بنے یہ غار زمین سے 155 فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔
انسانوں کے تعمیر کردہ ان ہزاروں غاروں کا شمار دنیا میں موجود آثار قدیمہ کے سب سے زیادہ پراسرار رازوں میں کیا جاتا ہے- ہزاروں کی تعداد میں کھودے گئے یہ سوراخ نازک اور انتہائی بڑے ہیں اور یہ مٹی کے رنگ کے پہاڑ میں تعمیر کیے گئے ہیں -حیران کن تعداد میں دریافت ہونے والے یہ غار کچھ چٹان کے سامنے کی جانب سے کھودے گئے ہیں جبکہ کچھ کی کھدائی سرنگوں کی شکل میں کی گئی ہے۔
ہزاروں سال پرانے ان بلند ترین غاروں کو دیکھ کر متعدد سوال جنم لیتے ہیں مثلاً ان کو کس نے تعمیر کیا؟ کیوں تعمیر کیا؟ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ جنہوں نے یہ غاریں کھودی وہ زمین سے 155 فٹ کی بلندی پر واقع ان پہاڑوں تک چڑھے کیسے؟
ایک اندازے کے مطابق ان غاروں کی تعداد 10 ہزار ہے، جن لوگوں نے اسے دیکھا ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسے ہی دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا ریت کا قلعہ ہو-
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمالیہ کے اس مقام پر کسی دور میں لو سلطنت کا دارلحکومت تھا، جسے اب بالائی مستنگ بھی کہا جاتا ہے، اس کو اکثر نیپال کی پوشیدہ خیالی جنت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔درمیانی صدیوں کے زمانے میں بالائی مستنگ ایک آزاد ریاست تھی جس کا جغرافیائی وقوع اسے ہمالیہ اور ہندوستان کے درمیان تجارت پر مکمل اختیار دیتا تھا۔ لو منتھنگ کو جو صدیوں تک اس کا دارالحکومت تھا اس کی سفید عمارتوں سے پہچانا جاتا ہے جو اکثر رنگین بدھ جھنڈوں میں لپٹی ہوتی ہیں۔
یہ پہاڑی علاقہ صدیوں پہلے نیپال اور تبت کے درمیان ایک اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس قدیم دارالخلافہ لو منتھنگ تک پہنچنے کے لیے جوم سوم نامی قصبے تک ایک پر خطر ہوائی سفر کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس کے بعد اگر موسم خشک ہو تو چھ گھنٹے کا سفر سطح مرتفح تبت تک ٹرک پر طے کرنا ہوتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں یہ چھ گھنٹے کا ٹرک کا سفر کئی دنوں کی گھوڑوں پر ٹریکنگ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ یہ خطہ
ان بعض جگہوں میں سے ایک ہے جہاں تبتین ثقافت بچ پائی ہے۔ 1992ء تک اسے سیاحوں کے لیے مکمل طور پر بند رکھا گیاتھا۔
1992ء کے بعد اس پراسرار مقام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سہرا ایڈونچر فوٹوگرافر Cory Richards کوہ پیما Pete Athans اور آثار قدیمہ کے ماہر Mark Aldenderfer اور ان کی ٹیم کے سر جاتا ہے-
“ یہ ایک انتہائی قدیم مقام ہے اور یہ کئی منزلوں پر مشتمل ہے- آسمانوں سے باتیں کرتی ان غاروں پر چڑھنا کوئی آسان کام نہیں تھا- کیونکہ چٹانیں ہل رہی تھیں اور اس ٹیم کے لیے یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھیں ”-