جنگلات…… عطیہ خداوندی
زمین کے بڑے رقبے پر قدرتی طورپر اگنے والے پیڑ پودے انسان کی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ عطیہ خداوندی ہے۔ہماری سطح زمین کا تقریباً ایک تہائی حصہ جنگل پر مشتمل ہے جس کا وجود انسانی زندگی کیلئے بہت ضروری ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی دو ایسی اقسام ہیں جس کے بارے میں لوگ بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے نیم کے جنگلات، صنوبر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب زیادہ سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے یعنی یہ سوسال میں ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے۔ صنوبر کو کرہ ارض کی حیاتیاتی تاریخ کے ارتقائی سفر کا ایک قدیم اور زندہ مسافر سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر انہیں زندہ فوسلز بھی کہتے ہیں۔لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ منفی انسانی سر گرمیوں اور غیر دانش مندانہ استعمال کے باعث اس منفرد نوع کے جنگل کو پہنچے والے نقصانات شدید تر ہو گئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس جنگل کاحیاتیاتی نظام خطرے سے دوچار ہے۔ صنوبر کے جنگلات زمین کو ہواکے کٹاوسے محفوظ رکھتے ہیں۔ موسم گرما اور سرما کی شدت کو کم کرنے میں اور ہوا میں نمی کے عنصر کو بھی بر قرار رکھتا ہے۔ یہ سیلابی پانی کے بہاوکو کم کرتے ہیں، جس سے قدرتی نظام کے تحت زیر زمین پانی کی ترسیل کو باضابط بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تیمر کے جنگلات قدرتی آفات سے بچانے کیلئے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاوکو روکتے ہیں اور سمند ر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فارسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100سال میں مکمل طورپر ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ جنگلات کی اہمیت انسانی زندگی میں بنیاد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ماحول کو آلودگی سے بچاتی ہے اور موسم کو معتدل رکھتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہر سال لاکھوں درخت لگا کر نہ صرف اپنے جنگلات کو وسیع کیا جائے بلکہ انسانی زندگیوں کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچایا جائے لیکن افسوس کہ ہم جنگل اور جنگلی حیات کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔ جنگلات چونکہ سیلابی پانی کی رفتار کم کرتے ہیں اور زمین کو کٹاوسے بچاتے ہیں اور زمین کی ذرخیزی کو قائم رکھتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی جنگلات کاٹے جائیں تو خالی ہو جانے والی جگہ پر نئے درخت لگائیں تاکہ جنگلات کا رقبہ کم نہ ہونے پائے۔