کیسویں صدی کا ممتاز نغمہ نگار۔۔۔ قتیل شفائی
قتیل شفائی نے گیت لکھے،نظمیں لکھیں اور غزلیں بھی کہیں مگر ان کے فن کا حسن اور شعر کا جمال غزل ہی میں نکھرتا ہے۔اس کے بعد گیت کی کشش محسوس کی جاتی ہے اگرچہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے یہاں گیت کی روش کیوں کر پروان چڑھی؟ وہ سرحد کی فضاؤں میں جوان ہوئے اور مزاج بھی انھوں نے وہیں کا پایا،وہیں کی آب و ہوااور فضا کا ان پر اثر نمایاں ہوا۔
احمد ندیم قاسمی کی قربت نے قتیل شفائی کی علمی و ادبی سوچ کو جلا بخشی۔بہتر روزگار کی تلاش انھیں لاہور کھینچ لائی۔کلرکی سے ملنے والی محدود تنخواہ سے جب معاشی مسائل حال نہ ہوئے تو انھوں نے فلمی رسائل میں ادارتی صفحے لکھا شروع کر دیے۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کو وجود میں آئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔آنجہانی دیوان سرداری لال نے فلم ”تیری یاد“ شروع کی اس فلم کے موسیقارعنایت علی عرف ناتو تھے۔ہدایت کار داؤد چاند تھے۔قتیل شفائی موسیقار عنایت علی (ناتو)سے ملے اور انھیں اپنے چند گیت پیش کیے۔موسیقار ناتو نے فلم ”تیری یاد“ کے لیے قتیل شفائی سے گیت تحریر کروائے۔ اس فلم میں کل دس گانے تھے،نو گانے قتیل شفائی نے تحریر کیے اور ایک گانا تنویر نقوی نے لکھا تھا۔
قتیل شفائی نے اپنے پورے فلمی کیریئرمیں پہلی فلم ”تیری یاد“‘1949 سے لے کر آخری ریلیز فلم ”میرے محبوب“ 2002 تک قریباً 200 فلموں میں نغمہ نگاری کی،ان کے لکھے ہوئے بے شمار نغموں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔