بندرکا پچھتاوا!

ٹینکو اور زوبی دو بندر تھے جن میں بچپن ہی سے گہری دوستی تھی۔ دونوں ایک ہی انجیر کے درخت پر پیدا ہوئے، ایک ہی بِیل پر کھیلے اور جنگل کے ایک ہی حصے میں پلے بڑھے۔ٹینکو زندہ دل تھا۔وہ ہمیشہ خود کو ثابت کرنے کے لیے بے تاب رہتا تھا۔جبکہ زوبی خاموش طبع تھا، لیکن جب وہ بولتا تو اْس کی بات اہم ہوتی۔ایک مرتبہ خشک موسم میں، جنگل کے بزرگ جانوروں نے ایک خاص تقریب کا اعلان کیا۔جس میں ہر جانور کو بہترین پھل لانے کی دعوت دی گئی۔ یہ صرف ایک مقابلہ نہیں تھا بلکہ اس مقابلے میں بہترین پھل کی تعریف کی جائے گی، اور جو بھی اسے لائے گا اسے تھوڑا داد بھی ملے گی۔
ٹینکو، جوخود کی تعریف کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا تھا، پھل ڈھونڈنے لگ گیا۔لیکن خشک سالی نے کئی پھلوں کے درختوں کو سکھا دیااس لئے اْسے   صرف آدھے پکے کیلے اور زیادہ پکے امرود ہی مل سکے۔ اس دوران، زوبی چپ چاپ ندی کے کنارے ایک دور دراز درخت پر چڑھا اور ایک ایسا پھل لے کر واپس آیا جو اْن میں سے کسی نے ہفتوں سے نہیں دیکھا تھا،  ایک گہرے سرخ رنگ کا پکا ہواآلو بخارا۔
ٹینکو اْس پھل کو دیکھتا رہا۔اور پھل جمع کروانے سے ایک رات پہلے، اْس نے سوچا کہ زوبی کواِن چیزوں کی پرواہ نہیں ہے۔ اْسے تعریف کروانے  میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیوں ناں میں اْس کا پھل لے جاؤں اور جمع ہونے کے بعد واپس کر دوں گا۔ویسے بھی یہ صرف ایک پھل ہی تو ہے۔اور اْس نے ایسا ہی کیا۔زوبی اگلی صبح حیران تھا جب اْسے آلو بخارا نہیں ملا۔ لیکن اْس نے زیادہ کچھ نہیں کہا۔بس تھوڑی دیر اِدھر اْدھر دیکھا، پھر وہ کیلے اْٹھائے جو ٹینکو لایا تھا اور پھل جمع ہونے والی جگہ پر چلا گیا۔
ٹینکونے آلو بخارا پیش کیا۔سب بزرگ جانوروں نے ایسا پھل ڈھونڈنے پر اْس کی تعریف کی اور اْس کے انتخاب کو بھی سراہا۔ لیکن ٹینکو کیلئے یہ کوئی شاندار فتح نہیں تھی، صرف خاموش پہچان تھی۔
جب اْس نے نظر دوڑا کر زوبی کو دیکھا، تو اْس کے دوست کا چہرہ پْرسکون تھاپھر وہ خاموشی سے گھر چلے گئے۔کئی دن گزر گئے اوراْن دوستوں کے درمیان ہنسی مذاق بھی غائب ہو گیا۔ زوبی اب بھی ٹینکو کو اچھے سے ملتا، اب بھی اپنا کھانا بانٹتا، اب بھی ضرورت پڑنے پر مدد کرتا لیکن اْن کے درمیان کچھ ان کہی بات بیٹھ گئی تھی،ٹینکو بھی وقت کے ساتھ ساتھ زوبی کے ہراِن کہے لفظ محسوس کرتا۔ٹینکو نے سوچا کہ وہ زوبی کو بتا دے گا کہ اْس کا پھل کہاں گیا تھا لیکن اْس سے کیا بدلتا؟
اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔پھر، اگلے بارش کے موسم میں، ندی کے کنارے بہت پانی تھا۔ ایک صبح، خبر آئی کہ زوبی ایک پھنسے ہوئے جانور کی مدد کے لیے سیلاب زدہ ندی کے قریب گیا تھا اور واپس نہیں آیا۔
ٹینکو بنا سوچے بھاگا۔ جب وہ پانی کے کنارے پہنچا، تو اْس نے زوبی کو ایک شاخ پکڑے دیکھا، جو گہرے کیچڑ میں پھنسا ہوا تھا، پانی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ کوئی ہجوم نہیں تھا، کوئی ڈراما نہیں تھا۔بس دو دوست مشکل میں تھے۔
ٹینکو کو ایک لمبی چھڑی ملی، پانی کے کنارے میں اْترا اور اْسے باہر نکالا۔ وہ ایک بار پھسلا لیکن اپنی گرفت برقرار رکھی۔ کوشش اور حوصلہ افزائی کے ایک خاموش لفظ کے ساتھ، اْس نے زوبی کو خشکی پر واپس آنے میں مدد کی۔کوئی ڈرامائی بچاؤ نہیں تھا۔ بس دو بندر گیلی زمین پر بیٹھے تھے، زور زور سے سانس لے رہے تھے۔
جب وہ ایک درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے، تب بالآخر ٹینکو نے کہاوہ میں تھا۔ میں نے اْس دن آلو بخارا لیا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ صرف پھل تھا، لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔زوبی نے جواب دینے سے پہلے اْسے دیر تک دیکھا۔ اور پھر سادگی جواب دیا:میں جانتا تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ تم واپس آؤ گے۔
اْس کے بعدانہوں نے اِس بارے میں دوبارہ کبھی بات نہیں کی۔ لیکن وقت کے ساتھ، اْن کے درمیان خاموشی نے اپنا وجود مضبوطی سے قائم کر لیا اور اْن کے درمیان پہلے کی طرح کچھ باقی نہ رہا۔
اس واقعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر ٹینکو نے کبھی دوبارہ تعریف نہیں مانگی۔ کیونکہ اس تعریف کے چکر میں جواْس کیلئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا، وہ تقریباً اْسے کھو چکا تھا۔ پھر ٹینکو نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خاموشی سے، بغیر الفاظ کے، دوبارہ سے خود کو وہ بنانا شروع کرے گا جو واقعی اہمیت رکھتا ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail