ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ (قابلِ فخر شخصیت)
انسان کی کسی بھی کامیابی کو حاصل کرنے کی جستجو جب جنون کی شکل اختیار کر جائے تو پھر زندگی میں ناممکنات اور مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ زندگی میں عزم اور مستقل مزاجی مزاج سے محنت کرتے رہیں تو کامیابی مقدر بن جاتی ہے۔ پھر انسان مسائل پر نہیں وسائل پر نظر رکھتا ہے۔ ہمارے آس پاس بہت سی ایسی شخصیات ہیں جو حقیقی زندگی میں کامیابی کی مثالیں ہیں۔ جنہوں نے ناکامیوں کا مقابلہ کر کے کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔یقینًا ایسے لوگ خوابوں کو سچ کرکے قابلِ فخر داستان بن جاتے ہیں۔
ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ کی شخصیت اور زندگی بھی ایک اہم داستان ہے۔ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ 5 اکتوبر 1941 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد متحرم لیبارٹری میں کام کرتے تھے جبکہ ان کی والدہ محترمہ ایک پرائمری سکول ٹیچر تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم میونسپل سکول سے حاصل کی اور وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ چونکہ پاکستان معاشرے میں اْس وقت کیرئیر کے متعلق فیصلے والدین کرتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ میں فورمین کرسچن کالج، لاہور میں داخلہ لوں لیکن میرے پاس فیس ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ پھر میں نے گورڈن کالج، راولپنڈی میں داخلہ لیا۔ جہاں میری ملاقات ایک مشنری جان کری سے ہوئی جنہوں نے میری گورڈن کالج کی فیس ادا کی اور میں نے 1957 میں گورڈن کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔میرے والدین کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں اور میں نے اپنے والدین کی تابعداری کی۔ 1959 میں نشتر کالج ملتان میں داخلہ لیا۔اگرچہ ڈاکٹر پیٹر کا تعلیمی کیرئیر اتنا شاندار نہیں رہا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے سارے امتحان وقت پر پاس کر لئے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے کرسچن ہسپتال ٹیکسلا میں کام کیا اور اس کے بعد 5 سال مختلف مشنری ہسپتالوں میں کام کرتے رہے۔
1965 کی جنگ کے وقت وہ یوسی ایچ لاہور میں بطور انٹرن کام کر رہے تھے۔ وہاں کارڈیو سرجن ڈاکٹر نے انہیں کہا کہ وہ ساہیوال ہسپتال میں بطور ایڈمنسٹریٹر ذمہ دایاں سنبھالیں کیونکہ جنگ کی وجہ سے امریکی ڈاکٹروں کو واپس جانا پڑا رہا تھا۔ ڈاکٹرصاحب اْس وقت صرف 22 سال کے تھے۔ انہوں نے 3 سال ساہیوال اور 2 سال سیالکوٹ ہسپتال میں کام کیا۔1968میں ان کی شادی مسز شمیم ڈیوڈ سے ہو گئی۔ 1969 میں وہ work Permit پر برطانیہ چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے کبھی وقت ضائع نہیں کیا اور نہ ہی میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں پریشان اور مایوس ہوتا۔ میں برطانیہ آنے کے 6 دن بعد ایک قریبی ہسپتال میں چلا گیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے لئے کوئی نوکری نہیں ہے تو آپ مجھے بطور رضاکار کام دے دیں تاکہ میں فارغ نہ رہوں بلکہ کچھ کام کر سکوں۔ میں ہر وقت کام کرنے والا انسان ہوں۔میں آج بھی 81 سال کی عمر میں 7 دن اپنا کلینک کھولتا ہوں اور گرمیوں میں Week End پر اپنے مریضوں کی سہولت کے لئے بغیر معاوضے کے کام کرتا ہوں۔ کام کے حوالے سے میرا ہمیشہ مشنری رویہ رہا ہے۔ اس سارے سفر میں میری اہلیہ کا ساتھ اور تعاون بہت اہم رہا ہے۔ میرے والدین کی دعاؤں کے بغیر میرے لئے کامیابی ممکن نہیں تھی۔ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ نے کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی مسیحی نوجوان معاشرے میں بہتر مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی معاشی اور سماجی حیثیت بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں محنت کے سوا اور کوئی فارمولا اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ پاکستان انٹرنیشنل کرسچن میڈیکل ایسی ایسوسی ایشن کے چیئر ہیں۔ فارمین کرسچن کالج، یونیورسٹی کے لئے 2002 سے اب تک وہ 2 کروڑ روپے کرسچن اسٹوڈنٹس اسکالرشپ فنڈ کے لیے دے چکے ہیں۔ جو کہ کالج کی 150 سالہ تاریخ میں کسی بھی فردِ واحد کی جانب سے سب سے زیادہ فنڈ ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ دنیا میں واحد پاکستانی ہیں۔ ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ پاکستان کے تاریخی مسیحی اداروں کی تزئین و آرائش اور بحالی کے لیے بھی متحرک ہیں۔ وہ یونٹیڈ کرسچن ہسپتال، لاہور کی تزئین و آرائش کے لیے بھی خصوصی تعاون کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ، پاکستانی نژاد برطانوی میڈیکل ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ، معروف سماجی کارکن، مستحق طلباء کے لئے تعلیم کے پروموٹر، سابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز فارمین کرسچن کالج اور پاکستان میں سکاٹ لینڈ چرچ کے اٹارنی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خدمات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ کی زندگی پاکستان نوجوانوں کے لئے روشن مثال ہے۔ کہ اگر وہ دل لگا کر محنت کرتے رہیں تو وہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ قدرت کا کمال کہیں یا ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ کی محنت کا پھل کہ جس کالج میں داخلے کے لئے ان کےپاس کے پیسے نہیں تھے،آج اْسی کالج نے مستحق طلبہ کی مالی معاونت پر ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کالج میں ایک بلڈنگ کو ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ بلاک کا نام دے دیا ہے۔
ان کی فروغ ِتعلیم اور سماجی خدمات کے اعتراف میں 2016 میں صدر پاکستان اور دو مرتبہ گورنر پنجاب نے ایوارڈ دیے ہیں۔
خدا نے دنیا میں بہت سارے لوگوں کو برکت دی ہوتی ہے لیکن وہ اپنی برکت کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر بے برکتے ہی رہتے ہیں جب کہ کچھ لوگ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ کی طرح اپنی برکتوں کو دوسروں سے بانٹ کر بابرکت اور کثرت کا سبب بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب انسانیت کے لئے درد دل رکھنے والے انسان ہیں جو اپنی کیمونٹی کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لئے عملی معاونت کے روح رواں بھی ہیں۔ ڈاکٹر پیٹر ڈیوڈ ہمارے ملک اور کیمونٹی کا فخر اور سرمایہ ہیں۔