ڈاکٹر رْوت فاؤ(پاکستان کی مدر ٹریضہ)
9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی روت کیتھرینا مارتھا فاؤ کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد مجبوراً مشرقی جرمنی سے ہجرت کرنی پڑی۔ مغربی جرمنی آکررْوت نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُوت کو ایک مشنری تنظیم ”دخترانِ قلب مریم“تک لے آئی اور انھوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔
سن 1958ء میں ڈاکٹر رْوت نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔اس بیماری میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے۔جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اْس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے۔کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں،ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اْسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے۔یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا۔ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے
شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں۔یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ آنکھ،منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے۔ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ والی روٹیاں جھاڑ کر کھا تے۔ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے۔ایک یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُوت فاؤ کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انھوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا۔جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ ''Marie Adelaide Leprosy Centre'' کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ اْن کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُوت فاؤ نے ہی دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُوت نے پاکستان کے دْورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انھوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُوت فاؤ، اْن کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے اْن اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔ڈاکٹر رُوت فاؤ کی زندگی پر کتاب بھی لکھی گئی جس کا نام Serving the Unserved ہے۔ جو ڈاکٹر ضیا مطاہر نے لکھی اور اس کا اْردو ترجمہ 2013 میں ہوا۔ڈاکٹر رْوت فاؤ طویل علالت کے بعد 10 اگست 2017ء کو 88 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔
حکومت نے 1988ء میں اْن کو پاکستان کی شہریت دے دی۔ ڈاکٹر رْوت فاؤ کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انھیں اعزازات سے نوازا۔جن میں نشانِ قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ڈاکٹر رْوت فاؤ جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی تھی انہوں نے تقریباً57 برس پاکستانیوں کی خدمت کی۔ انھیں پاکستان کی”مدر ٹریضہ“ بھی کہا جاتا ہے۔