واصف علی واصف (صوفی درویش)
واصف علی واصف 19جنوری 1929کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ملک عارف کا تعلق اعوان قبیلے کی ایک شاخ”کنڈان“سے ہے۔ والدین نے اس بچے کا نام واصف علی رکھا بچپن کے بعد جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو ان کو قصبہ کے ایک سکول میں داخل کر وادیا گیا اور پھر آپ نے جون1939ء میں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ پھر مزید تعلیم و تربیت کیلئے نانا کے پاس جھنگ آگئے اور جھنگ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے 1944ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اس وقت میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی‘اسی طرح انہوں نے ایف اے جھنگ کے کالج سے فرسٹ ڈویژن ہی میں پاس کیا اور گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجوایشن کرنے کے بعد ایم اے انگریزی ادب کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے۔دوران تعلیم نوجوان واصف کا کیرئیر توبے مثال تھا‘اسی طرح غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ہاکی کے بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے 1948ء میں ”کالج کے بہترین کھلاڑی“کا اعزاز اور 1949ء میں ”ایوارڈ آف دی ایئر“بھی دیا گیا تھا جبکہ ستمبر 1954ء میں ویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔تعلیم کے بعد انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر سرکاری نوکری ان کی منزل مقصود نہ تھی لہٰذا کچھ عرصہ بعد انہوں نے ٹمپل روڈ(حمید نظامی روڈ)پر پنج دریا کے مالک وایڈیٹرافضل خان کے پنجابی اینگلو کالج میں علوم شرقیہ کے طالب علموں کو پنجابی پڑھانے کا آغاز کر دیا،بعدازاں نابھ روڈ پر”لاہور انگلش کالج“کودرس و تدریس کا مرکز بنا لیا اور ساتھ ہی ہفتہ وار ادبی نشستوں کا اہتمام بھی ہونے لگا جس میں اردو پنجابی کے معروف شعراء کرام شرکت کرتے تھے۔اسی دوران انہوں نے تصوف پر لیکچردینے کے ساتھ اخبارات میں خاص طور پر ”نوائے وقت“میں ہر ہفتے کالم لکھنے کا بھی آغاز کر دیا تھا۔آپ کو تصوف سے دلچسپی زمانہ طالب علمی سے ہی تھی اور درس و تدریس کے دوران بھی وہ اس موضوع پر گفتگو بھی کرتے اور لکھتے بھی رہے۔انہی دنوں ”ادب لطیف“کے ایک خصوصی شمارے میں تصوف کے موضوع پر اشفاق احمد اور حنیف رامے کے ساتھ واصف علی واصف کی پر مغز مقالے شائع ہوئے اور اشفاق احمد،حنیف رامے سے ان کی ذہنی ہم آہنگی سے ایسی مجالس کا آغاز ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے علم وادب کے شیدائیوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔
ابتدا میں واصف علی واصف کو معروف شخصیات ہر ہفتے اپنے گھر مدعو کرتیں اور واصف صاحب کی تصوف پر گفتگو ہوتی اس کے بعد شرکاء محفل کے جوابات بھی دیتے۔پھر یہ سلسلہ مستقل واصف صاحب کے گھر پر ہی ان کی وفات تک جاری رہاجس میں عالمی وادبی ہی نہیں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی تھی۔
واصف علی واصف کا کلام اگر چہ اخباروجرائد میں وقتاً فوقتاً چھپتا رہتا تھا پھر اسے احباب کے اصرار پر ترتیب دے کر کتابی صورت میں ”شب چرغ“کے نام سے شائع ہوا،پھر ان کی کتاب”کرن کرن سورج“طبع ہوئی تو لاہور میں اس کی تقریب پذیرائی ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہوئی جس میں ملک بھر کی معروف علمی وادبی شخصیات نے اظہار خیال بھی کیا اور یوں ان کی کتابوں کو بھی پذیرائی کا سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھنے لگا اور انکی درجنوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔واصف علی واصف 18جنوری 1993ء کو 64سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
واصف علی واصف آج اس جہان فانی میں نہیں لیکن ان کی تحریروں سے علم وادب کے پروانے آج بھی فیض یاب ہورہے ہیں۔جب وہ حیات تھے‘مخلوق خدا ان کے پندونصائح سے فیض پاتی تھی اور ان کے اس جہان فانی سے جانے کے بعد بھی ان کی باتوں کو آج بھی دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں‘ان کے افکار آج بھی زبان زدعام ہیں۔