مقدسہ جون آف آرک
فرانسیسی اور برطانوی دشمنی ایک دور میں ضرب المثل رہی ہے۔ایک وقت تھا جب دنیا میں جس جس جگہ انگریز گئے فرانسیسی اْن کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکال کر خود قابض ہونے کی کوشش کی۔ بعض جگہ انہیں کامیابی ہوئی اور اکثر جگہ ناکامی۔ بہر حال، ان دونوں ممالک میں جنگ سن 1337 سے 1453 تک چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی شکل میں جاری رہی۔ اس جنگ کا آغاز چند فرانسیسی علاقوں کو برطانوی تسلط سے چھڑانے کے ضمن میں ہوا۔ اگرچہ یہ علاقے فرانسیسی بادشاہوں نے خود برطانوی بادشاہوں کے حوالے کر رکھے تھے تاکہ اس کے بدلے وہ اْن کے وفادار رہیں اور اْن کی بادشاہت کو تسلیم کرتے رہیں۔اْن میں سے بعض علاقے ایسے تھے جو معاشی لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل تھے اور ایسے ہی علاقوں کو چھڑانے کے چکر میں دونوں مملکتیں ایک ایسی جنگ چھیڑ بیٹھیں جو مختلف لڑائیوں، معاہدہ ہائے امن اور بعد ازاں ان معاہدوں کی خلاف ورزیوں کی صورت میں سو سال سے زائد عرصے تک جاری رہی۔
اس جنگ کی آخری صورتِ حال یہ بنی کہ 1415 میں برطانوی بادشاہ ہنری پنچم نے فرانس پر ایک زور دار حملہ کیا۔حملے کے پہلے مرحلے میں ایک زور دار لڑائی ہوئی جس میں برطانوی فوجوں نے فرانسیسی فوجیوں کو مار بھگایا اور فرانس کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد 1417 سے منظم طور پر فرانس کی فتح کا آغاز ہوا۔اس کے بعد فرانسیسی حکومت نے برطانوی بادشاہ کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت فرانسیسی ولی عہد سے اس کی ولی عہدی چھین لی گئی اور اس کی بہن کو برطانوی بادشاہ کے حرم میں داخل کر دیا گیا۔ اس کے باوجود جنگ ختم نہ ہوئی کیونکہ فرانس کا ایک بڑا حصہ ابھی تک معاہدے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ یہ لوگ ولی عہد کی حمایت میں تھے۔فرانس پر فوج کشی کا دوبارہ آغاز ہوا۔1424 میں ڈیوک آف بیڈ فورڈ نے فرانسیسیوں کو ورنوئل کے مقام پر بھاری شکست سے دوچار کیا اور 1427 میں آرلینز کا محاصرہ کر لیا جو کہ فرانس کا ایک اہم شہر تھا۔ اس شہر پر قبضے کا مطلب تھا کہ پورا فرانس برطانیوں کے زیر تسلط آجاتا۔ یہ وقت تھا جب جون آف آرک جنگی منظر نامے پر نمودار ہوئی۔جون آف آرک ایک مزدور خاندان کی مزدور بیٹی تھی۔ وہ 1412 میں پیداہوئی۔بچپن سے ہی اسے ایسی آوازیں سنائی دیا کرتی تھیں جنہیں وہ آسمانی آوازیں کہہ کر پکارتی تھی۔ ان آوازوں کے ساتھ بعض اوقات اسے مختلف منظر اور شکلیں بھی دکھائی دیا کرتی تھیں۔ جون آف آرک کو یقین تھا کہ یہ آوازیں ان شہیدوں اور ولیوں کی ہیں جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کو آتی ہیں۔
سن1429میں جب آرلینز کا سقوط اورفرانس کی شکست یقینی ہو چکی تھی ان آوازوں نے جون آف آرک کو ترغیب دینا شروع کی کہ وہ اْٹھ کھڑی ہو اور فرانسیسی ولی عہد کی مدد کرتے ہوئے اس کا تحت اْسے واپس دلائے نیز برطانوی حملہ آوروں کو فرانس سے نکال دے۔اس وقت کا فرانسیسی ولی عہد بعدازاں چارلس ہفتم کے نام سے تحت نشین ہوا۔جون آف آرک اس سے جا کر ملی اور اسے قائل کر لیا کہ آسمانی طاقتوں کی طرف سے فرانس کو بچانے کی مہم اسے سونپی گئی ہے۔ مذہبی علماء کے ایک گروہ نے اس کی بات کی تصدیق کر دی چنانچہ چارلس ہفتم نے فوجی دستے اس کے حوالے کر دئیے۔ اس وقت جون آف آرک کی عمر صرف 17 سال تھی۔جون آف آرک اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ برطانوی مقابلے میں آگئی۔
وہ میدانِ جنگ میں مردانہ کپڑے اور زرہ بکتر پہنے اور فرانس کی آزادی کی علامت سفید جھنڈا ہاتھ میں لئے سب سے آگے رہا کرتی۔ اس کی زیرِ قیادت فرانسیسی فوج نے انگریزوں کو قدم قدم پر شکست سے دو چار کیا۔ نیوآرلینز کا محاصرہ ختم ہو گیا اور دیگر کئی مقامات سے بھی انگریزوں کو بھاگنا پڑا۔جون آج آرک کی فتوحات کے بعد یہ ممکن ہو سکا کہ فرانسیسی ولی عہد تخت پر بیٹھ کر بادشاہت کا تاج اپنے سر پر رکھ سکے۔چارلس ہفتم فرانس کا بادشاہ بن گیا۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے جون آف آرک کے احسانات کو فراموش نہیں کیا اور اسے تخت پر اپنے برابر جگہ دی۔جون آف آرک کی بدولت پورا فرانس چارلس ہفتم کے جھنڈے تلے متحدہوگیا۔ جون آف آرک کا مشن ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ انگریزوں کو فرانس سے پوری طرح نکال باہر کرنا چاہتی تھی لیکن چارلس ہفتم مزید جنگی مہمات بھیجنے کے حق میں نہیں تھا۔چنانچہ جون آف آرک نے شاہی مدد کے بغیر اپنے طور پر ایک فوج تیار کی اور انگریزوں سے لڑنے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔راستے میں اتفاقاََ وہ برگنڈی کے سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گئی جنہوں نے اسے برطانیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اس پر مردانہ لباس پہننے، چرچ کی اہانت کرنے اور جادوگری کے الزام میں مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیااور سزائے موت سْنا دی گئی۔بعد ازاں جون آف آرک نے چرچ سے معافی چاہی تو سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا لیکن چونکہ جیل واپس جانے کے بعد اس نے دوبارہ سے مردانہ لباس پہننا شروع کر دیا تھا اس لئے اسے دوبارہ عدالتی کارروائی سے گزارا گیا۔ اس مرتبہ عدالت غیر مذہبی تھی۔ اس عدالت نے اسے سزائے موت سنائی اور 30مئی 1431 کو صرف 19 سال کی عمر میں جون آف آرک کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا۔اس کی موت کے 25 سال بعد چرچ نے اسکے مقدمے پر دوبارہ غور کیا اور اس مرتبہ اسے تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ جوف آف آرک اگرچہ مر چکی تھی لیکن چرچ کی اس کارروائی سے اس کے نام پر لگا ہوا وہ دھبہ ہٹ گیا جو اسے مسلسل بے دین ثابت کر رہا تھا۔جون آف آرک جل کر راکھ ہو گئی لیکن جو شمع وہ روشن کر گئی تھی وہ نہ بجھی۔
جنگ کا دھارا فرانس کے حق میں مڑ گیا اور 1453 میں جب یہ جنگ ختم ہوئی اور سر زمینِ فرانس پوری طرح آزاد ہو چکی تھی۔فرانس کی تاریخ میں جون آف آرک کو وطن پرستی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اور سن 1920میں پوپ بینڈکٹ پندرویں نے جون آف آرک کو مقدسہ قرار دیا۔ اس نے اپنی زندگی فرانس کو انگریزوں کے تسلط سے رہائی دلانے کی کوششوں میں گزاری لیکن اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ اپنا مشن مکمل کئے بغیر ہی اپنے چند ساتھیوں کی غداری کی وجہ سے ایک المناک انجام سے دو چار ہو گئی۔