مالن منرو
ہالی وڈ کی فلمی دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کامیابی حاصل کرنے والے کو یہ تینوں چیزیں مانگے بغیر بے حساب مل جاتی ہیں۔ بے پناہ دولت،دنیا بھر میں شہرت اور مخصوص حلقوں میں عزت۔ ہالی وڈ سے وابستہ ہر وہ فرد جسے اپنے شعبے میں کسی نہ کسی حوالے سے امتیاز حاصل ہے اسے شہرت، دولت، عزت تینوں دستیاب ہیں۔ اس دنیا سے وابستہ لوگ حقیقی معنوں میں مشہور قرار دئیے جا سکتے ہیں۔اور ان میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو شہرت پانے والوں میں شہرت یافتہ ہیں یعنی جن کی شہرت اور مقبولیت زمان ومکان کی حدین عبور کر ساری دنیا میں پھیل گئی اور ان کی موت کے بعد بھی آج تک قائم ہے۔ مارلن منرو بھی ایسی ایک اداکارہ ہے جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس کی شہرت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔
مارلن منرو کی اس لازوال شہرت کا سبب کیا ہے؟ شاید اس کا بے پناہ حسن، شاید اس کا منفرد انداز، شاید اس کا مقبولِ عام فلمیں یا شاید اس کی تلخ زندگی اور المناک موت۔مارلن منرو کی زندگی آغاز سے انجام تک رنگینیوں اور تلخیوں کا ایک ایسا انوکھا امتزاج ہے جو دیکھنے والی آنکھ کوچونکائے بغیر نہیں رہتا۔وہ جب پیدا ہوئی تو باپ کا نام استعمال کرنے کے حق سے محروم تھی کیونکہ اس کی ماں نے اسے ناجائز طور پر جنم دیا تھا۔جون 1926 کو لاس اینجلس میں وہ پیدا ہوئی تو اس کا نام نورماجین مارٹینسن رکھا گیا۔ مارٹینسن اس کے باپ ایڈورڈ کا سرنیم تھا لیکن چونکہ وہ ناجائز اولاد تھی اس لئے بعد ازاں اس کانام بدل کر نارما جین بیکر کر دیا گیا کیونکہ اس کی ماں کا سرنیم بیکر تھا۔عمر کا ابتدائی حصہ مارلن نے نہایت عسرت اور تنگی کے عالم میں گزارا۔ بات یہیں پہ ختم نہ ہوئی۔آٹھ سال کی عمر میں وہ ایک جنسی جنونی کے تشدد کا نشانہ بنی اور اس نازک ترین عمر میں اسے جنسی تشدد کے عذاب سے گزرنا پڑا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد اس کی ماں نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اسے پاگل خانے بھجوا دیا گیا۔ اس کے بعد مارلن منرو کا بچپن بے سہارا بچوں کی عدالت کے حکم کے تحت مختصر عرصے کے لئے گودلینے والے گھرانوں اور یتیم خانوں میں گزرا۔
اس نفرت انگیز چکر سے اْس وقت نجات ملی جب اس کے چند ہمدردوں نے دوڑ بھاگ کر کے اس کی شادی کرا دی۔ شادی کے وقت مارلن کی عمر 16 سال اور اس کے شوہر کی عمر 21 سال تھی اور وہ ہوائی جہاز بنانے کے ایک پلانٹ پرکام کرتا تھا۔ مارلن منرو بھی وہاں کام کرنے لگی۔اس پلانٹ پر کام کرنے کے دوران ایک روز ایک آرمی فوٹوگرافر نے اْس کی تصویر کھنچی۔ یہ تصویر چند ”قدردانوں“ کی نگاہ میں آگئی۔ابتدا میں اسے باتھنگ سوٹس کی ماڈلنگ کا کام ملا اوربالوں کو بلونڈ کر لیا تو اسے گلیمر فوٹو گرافس کی ماڈلنگ کا کام ملنے لگا۔انہی دنوں مشہور سرمایہ کار ہاورڈ ہیوز کی نگاہ سے اس کی چند تصاویر گزریں اور اس نے اپنی فلم کمپنی آرکے او کی فلموں کے لئے مارلن منرو کا سکرین ٹسٹ لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنا سکتا، مشہورِ زمانہ فلم سٹوڈ یو ٹوئنٹی ایتھ سنچری فاکس والوں نے مارلن منرو کو اپنے ادارے کیلئے سائن کر لیا اور اس موقع پر اس کانام نارما جین بیکر سے بدل کر مارلن منرو رکھ دیا گیا۔ابتدا میں مارلن کو چند فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول دئیے گئے۔ اس کے بعد 1953 میں کامیاب فلموں کے ایک سلسلے نے اس کے لئے شہرت وناموری کے در کھول دئیے۔ مارلن کے اس دور کی مشہور فلموں میں نیا گرا، جنٹل مین پریفر بلونڈز اور ٹومیری اے ملنیئر شامل ہیں۔اس کے علاوہ پلے بوائے میگزین نے اس کی ایسی تصاویر شائع کیں جو 1948 میں لی گئی تھیں لیکن ان کی باری مارلن کے شہرت حاصل کرنے بعد آئی۔ ان واقعات نے مارلن کی شہرت کو آسمان پر پہنچا دیا اور اسے 1953 کی سب سے مشہور اداکارہ کا اعزاز دیا گیا۔
اپنی پہلی فلم سے لے کر آخری فلم مس فٹس تک مارلن نے جو کردار ادا کئے، وہ سب کے سب ایسی خواتین کے تھے جنہیں محض نمائش اور سکرین کو سجانے کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پوری فلم میں فلم کا مرکزی کردار ان کے پیچھے بھاگتا ہوا اور انہیں پانے کی آرزو کرتا ہوتا نظر آتا ہے۔بظاہر یہ کردار بے حد عامیانہ سے معلوم ہوتے ہیں لیکن مارلن کا کمال یہ تھا کہ اس نے ان عامیانہ سے کرداروں کو بھی ایسا منفرد انداز عطا کیا کہ آج تک لوگ انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی کردار نگاری میں ایک خاص طرح کی معصومیت،فطری انداز اور بے باکی نظر آتی ہے۔ مارلن سے پہلے اور اس کے بعد کسی اور اداکارہ کو یہ کمال حاصل نہ ہوسکا کہ وہ ان معمولی اور روایتی کرداروں کو ایسی خصوصیت دے۔
ٹائم میگزین نے مارلن کی اس خصوصیت کو ایک فقرے میں یوں بیان کیا۔”مارلن وہ کام کرنے پر یقین رکھتی ہے جو اس کی فطرت کا حصہ ہو۔“ مارلن کا حْسن، کشش اور بناوٹ د کھاؤے کے بجائے اس کی فطرت کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔
اپنی شہرت کے عروج پر مارلن کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ اسے ایک مخصوص قسم کے کرداروں تک محدود کر دیا گیا ہے اور وہ کچھ کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ اپنے بارے میں اس کا اپنا خیال یہ تھا کہ ”سیدھے سادے الفاظ میں کہاجائے تو میں خود کو ایک ایسی بلندوبالا عمارت کی طرح محسوس کرتی ہوں جس کی کوئی بنیاد نہیں۔“
چنانچہ 1956 میں اس نے اپنی فلم کمپنی ”مارلن منرو پروڈکشنز“ کی بنیاد رکھی اور اس کے زیر اہتمام ”سم لائک اٹ ہاٹ“ اور ”پرنس اینڈ دی شوگرل“ جیسی شہرہ آفاق فلمیں تیار کیں۔مارلن منرو کا فلمی کیریئر بتدریج بلندیوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا
لیکن اس کی ذاتی زندگی بری طرح ناکامیوں اور تلخیوں سے دوچار تھی۔ اس نے دو شایاں کیں۔پہلی شادی بیس بال کے مشہور کھلاڑی جوڈی ماجیو سے کی اور دوسری شادی مشہور ڈرامہ نگار آرتھر ملر سے۔ دونوں شادیاں ناکام رہیں۔ ڈپریشن سے نجات پانے اور جسمانی تکالیف سے سکون پانے کے لئے وہ منشیات کا استعمال کرنے لگی۔اس کے باوجود پبلک میں اس کا تاثر اور شخصی سحر انگیزی قائم رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی عوام اسے جس روپ میں دیکھنا چاہتے تھے وہ اسی روپ میں ان کے سامنے آتی تھی۔عوام کو اس مارلن کی طلب رہتی تھی جسے انہوں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور مارلن منرو جب بھی سکرین پرجلوہ گر ہوتی تھی اس کا روپ روزِ اوّل کی طرح تروتازہ دکھائی دیتا تھا۔
پھر ایک روزیکا یک مارلن کی موت کی خبر نے سب کو چونکا دیا۔ 5 اگست 1926 کی رات وہ اپنے عالیشان گھر میں مردہ پائی گئی۔ خواب آور گولیوں کی بھاری مقدار کو اس کی موت کا سبب قرار دیا گیا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ مارلن منرو کے تعلقات کچھ ایسے بڑے لوگوں سے ہو گئے تھے جنہوں نے بعد افشائے راز کے خوف سے اسے مروا دیا۔ ان بڑے لوگوں میں مرحوم امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا نام تو اتر سے لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارلن منروکینیڈی سے اپنے ناجائزتعلقات کا راز طشت ازبام کرنا چاہتی تھی اور اپنا سیاسی کیریئر بچانے کے لئے کینیڈی نے اْس کی بھینٹ دے دی۔
مارلن منرو کی موت کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو اگر کسی کو اس کا مورِ الزام ٹھہرایا جائے گا تو پبلک میڈیا اور ہالی وڈ کے بڑے سب اس کی زد میں آئیں گے۔ کیونکہ ہر کسی نے اْس کا استحصال کیااور ہر کسی نے اس کے حسن وجمال کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ مشہور اداکار لارنس آلیویئر نے مارلن منرو کی موت کے بعد کہا۔ ”عوامی رائے اور اسے بنانے کے لئے کی جانے والی کوششیں زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ مارلن کا استحصال اس کی بساط سے زیادہ کیا گیا۔“ اوریہ استحصال آخر کار اس کی جان لے گیا۔ گو اْس کا نام آج بھی زندہ ہے لیکن اس کی کہانی آج بھی سننے اور پڑھنے والوں کو اداس کر دیتی ہے۔