علامہ پال ارنسٹ(نائٹ آف سینٹ سلویسٹر)
علامہ پال ارنسٹ 27 فروری 1902میں خوش پور میں پیدا ہوئے۔والدین نے لال دین اور بپتسمہ میں پال ارنسٹ نام رکھا گیا۔ابتدائی تعلیم خوش پور اور اس کے بعدڈھلوال اور پھر ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔گرایجویشن کے بعد حکومت نے تحصیلدار کا عہدہ پیش کیا۔لیکن آپ کا لگاؤ مذہبی تعلیم کی طرف تھا۔اس لیے آپ نے استاد کی حیثیت سے خدمت کو اپنایا۔آپ 25 سال تک سینٹ تھامس ہائی سکول خوش پور میں اْردو، فارسی، ریاضی اور مذہبی تعلیم پڑھاتے رہے۔
اس دور میں چک نمبر 35، 34، 36،52 چھوٹا اور بڑا رسیانہ اور گرد و نواح کے تمام ہندو،سکھ اور مسلم طلبہ خوش پور میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے کیونکہ کسی بھی گاؤں میں پرائمری سے اوپر تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ یہ تمام طلباء آپ سے بے حد متاثر تھے اور آپ کو پیار کرتے تھے۔ آپ کے شاگردوں میں سے بہت سارے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور ہیں۔آپ نے 43سال تک سینٹ البرٹ ٹریننگ سینٹر خوش پور میں مبشر ان ِ انجیل کی تربیت کی۔
سارے پاکستان میں آپ کو کنونشنوں میں لیکچروں کے لیے بلایا جاتا۔مذہبی رسالوں میں آپ باقاعدگی سے مضامین لکھتے تھے۔ آپ اْردو،انگریزی، فارسی، عربی، ہندی، یونانی، عبرانی اور پنجابی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔کیتھولک بائبل کا ترجمہ کرنے والی ٹیم میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔
ڈکشنری آف کرسچن ٹرمز کی ترتیب دینے والی کمیٹی میں بھی آپ شامل تھے۔ 16 فروری 1981 میں جنرل ضیاء الحق کے دور ِحکومت میں پاپائے اعظم جان پال دوم پاکستان کے دورے پر آئے تو کراچی ایئرپورٹ پر اْن کا استقبال کیا۔
اس موقع پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ پال ارنسٹ نے پوپ صاحب کو پگڑی پہنائی۔
ان کی تصانیفات: حقیقت المسیح،حقائقِ بائبل مقدس، مقامِ مریم،پْر فضل کنواری،کنواری سے پیدائش، پیدائشِ عالم،خدا کی بات،خدا کی زبان، خدا کی عبادت اور چراغِ راہ ہیں۔آپ نے رفاقتِ مسیح،انبار افکار، انمول موتی،القادر اور شاگرد بناؤ کا ترجمہ کیا۔
آپ کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں کیتھولک تنظیم المصنفین، ادارہ ہم لوگ،وائی ایم سی او، ادارہ کیتھولک نقیب اور کیتھولک ادارہ ادبیات نے شمس العلماء،علامہ ادیب ِاعظم اور فخرِ کلیسیاجیسے خطابات عطا کیے۔
آپ کی قابلیت اور اعلیٰ خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے فیصل آباد ڈایوسیس نے تمغہ خدمت، لاسال برادر ز کی طرف سے تمغہ لیاقت اور تمغہ فضیلت اور پوپ پال ششم نے ”نائٹ آف سیٹ سلویسٹر“کے ایوارڈ سے نوازہ۔12مئی 1991 کوعیدِ صعودکے دن ہزاروں سوگواران آپ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ آپ کو قومی شخصیت قبول کرتے ہوئے پوری عبادت میں پاکستانی پرچم الطار پر لہراتا رہا اور گرجا گھر سے قبرستان تک تابوت کے آگے آگے رہا۔