علامہ محمد اقبال

بر صغیر کے نامور شاعر علامہ اقبال ایک مکمل شخصیت تھے جن کی کئی پہلو تھے۔ وہ فلسفی،مصنف،شاعر سیاستدان مفکر اور وکیل تھے۔اعلی تعلیم ماسٹر ان آرٹس اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کے حامل تھے۔مرشد کلام کا کہنا تھا کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کا دوران چار کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھی۔ شاید یہی درود شریف کا وسیلہ تھا کہ اس بیدار مغز عاشق رسول نے شاعری کے وہ جوہر دکھائے کہ قیامت تک آنے والے شعراء کی لے مشعل راہ ہیں۔ وہ شاہین، تصوف، خودی، مردکامل اور تصور بندہ? مومن پر بات کرتے تھے۔ ان کے ناقابلِ فراموش اور لائقِ تحسین کارناموں میں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، بانگِ درا، زبورِ عجم، اور ارمغان حجاز نمایاں ہیں۔
شاہین کا استعارہ نوجوانوں کے لے استعمال کرتے تھے۔ اس لیے کہ شاہین ایک غیرت مند اور خوددار پرندہ ہے جو آذاد رہتا ہے پرواز بلند رکھتا ہے ایک گھر بنا کر نہیں رہتا، اپنا شکار خود کرتا ہے کسی کا نہیں کھاتا۔وہ ایک طائر لاہوتی ہے جو ایمان غیرت و حمیت کا مظہر ہے۔ فرماتے ہیں 
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اسی طرح خودی کے بارے میں فرماتے ہیں 
خودی کا سرنہاں لاالہ الا اللہ
اقبال مردکامل اور بندہ? مومن کا تصور پیش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنے اصل مقام کو پہچاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مؤمن کی اصل میراث قرآن ہے،دنیا اسکا قیدخانہ ہے۔ اگر یہ اپنے اصل کو پہچان لے تو حقیقت میں سیرتِ صحابہ کا نمونہ بنے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتاہے حقیقت میں ہے قرآن
مؤمن وہ ہے جو اسرارِ خودی ڈھونڈتا ہے، نگاہِ بلند، سخن دلنوز، اور ایمان مکمل سینۂ منور رکھتا ہے۔
عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث
مؤمن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
شکوہ جواب شکوہ لکھنے پر ان پر کفر کے فتوے بھی لگائے گئے۔ لیکن یہ ان کا ایک عظیم شاہکار ہے جس میں روحِ اقبالؒ ربّ اقبالؒ سے شکوہ کرتی ہے اور وہ خدائے لطف و کرم اپنے جلال و اکرام کے ساتھ جواب شکوہ دیتی ہے۔ مسلمان تو مسلمان اگر کافر بھی یہ پڑھے تو سینے کے قفل کھل جائیں دل کی آنکھ بیدار ہو جائے اور یہ تصوف آمیز کلام روح کو ایمان کی جلا بخشے۔
اقبال کے مؤثرات میں مولانا رومی، بایزید بسطامی، مجدد الف ثانی، مولانا مودودی اور دیگر شامل ہیں۔ معرفت الہٰی کیلے مولانا رومی کے کلام سے رجوع کرتے تھے وہ خود کو مرید ہندی اور رومی کو پیر رومی کہتے ہیں 
پیر رومی خاک رااکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
(پیر رومی نے خاک کو اکسیر کر دیا اور میری خاک سے کئی جلوے تعمپر کر دیئے)
مولانا مودوی سے ان کا تعلق اس وقت بنا جب مولانا مودودی نے پچس سال کی عمر مپں اپنی پہلی کتاب ''جہاد فی الاسلام '' لکھی اور اقبال نے اس کو بہت سراہا۔ انہوں نے ہی مولانا کو لاہور تشریف لے جا نے کا مشورہ دیا تھا۔
اقبال کو ہمیشہ شاعر کی حثیت سے جانا جاتا ہے اور عام لوگو ان کے پیشہ وکالت کو زیادہ کامیاب نہیں سمجھتے۔ لیکن راقم الحروف کی ادنی تحقیق میں علامہ اقبال کا وکالت کا کئیریر لندن سے بیرسٹری کرنے سے شدوع ہوا۔ انہوں نے اپنے پچاس سے زائد مقدمات جیتے جن۔میں فوجداری اور دیوانی مقدمات شامل ہیں۔ آل انڈیا رپورٹ، پنجاب لاء رپورٹ اور انڈین کیسز میں درج 104 مقدمات ایسے ہیں جن مپں اقبال کسی نا کسی فریق کے بطورِ وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
استغراق فی عشقِ رسول کا یہ عالم تھا کہ شاتم رسول کو واصلِ جہنم کرنے والے غازی علم دین شہید کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ قبر پر بیٹھ کر کافی دیر تک روتے رہے۔ کہنے لگے 'یہ لوہاروں کا بیٹا ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا۔'
آخرکار یہ غلام سرور کائنات،مرید ہندی، دو قومی نظریہ کے سرخیل، مفکر پاکستان نو نومبر 1937 کو اپنے ساقی سے جا ملے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

آٹیکل:
فرانسسِ زیوئیر

Daily Program

Livesteam thumbnail