ساحر لدھیانوی
ہندی فلموں کے معروف نغمہ نگار اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعر ساحر لدھیانوی کی پیدائش 8 مارچ 1921ء کو ہندوستانی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہوئی۔ ساحر نے اپنی ابتدائی تعلیم یہیں خالصہ اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور اسی درمیان امرتا پریتم کے عشق میں گرفتار ہونے کے چلتے کالج سے نکالے گئے اور لاہور چلے گئے۔ 1947 میں جب ملک دو حصوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تو ترقی پسند نظریات کے چلتے ساحر کے نام 1949ء میں وارنٹ جاری کیے گئے جس کے بعد ساحر واپس ہندوستان سیدھے ممبئی چلے آئے۔ ساحر کا قول بڑا مشہور ہے کہ ”بمبئی کو میری ضرورت ہے“۔
اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے محسوس کر لیا تھا کہ فلم کے ذریعے اپنی بات عوام تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ ساحر جس مشن کے تحت بمبئی آئے تھے اس میں انھیں کافی حد تک کامیابی ملی اور 1949ء میں بے شک ان کی پہلی فلم ”آزادی کی راہ پر“قابلِ فخر ٹھہری، لیکن موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم ”نوجوان“میں ان کے لکھے ہوئے نغموں نے خوب مقبولیت حاصل کی۔فلم نوجوان کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں جیسے کہ ”بازی“، ”جال“،”ٹیکسی ڈرائیور“، ”ہاؤس نمبر 44“،”منیم جی“اور ”پیاسا“ میں اکٹھے کام کیا۔ جبکہ ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی چنانچہ اس جوڑی نے ”چترلیکھا“، ”بہو بیگم“، ”دل ہی تو ہے“، ”برسات کی رات“، ”تاج محل“، ”بابر“اور ”بھیگی رات“جیسی بے مثال فلموں میں اپنی تخلیقی قوتوں کے جوہر دکھا تے ہوئے خوب نام کمایا۔ساحر نے جن دیگر موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اْن میں او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسروں کے نام شامل ہیں۔
ساحر کے علاوہ کئی اچھے شعراء نے فلمی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا، لیکن جو شہرت و بلندی کے حصے میں آئی وہ کسی دوسرے نغمہ نگار کو نصیب نہ ہوئی۔اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی و افکار ساتھ لے کر آئے اس کے علاوہ دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں ساحر کو اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بہت زیادہ ملے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ساحر نے اپنے دور میں جن فلم سازوں کے ساتھ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے بڑے حامی تھے۔ساحر کی زندگی جن حالات میں گزری اور لوگوں کو انکی ذاتی زندگی میں کس قدر دلچسپی تھی۔اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ساحر نے اپنے عروج کے زمانے میں دو ایسی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے کسی قدر ماخوذ تھی۔ ان فلموں میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں یقیناً ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ دونوں فلمیں اپنے وقت کی بڑی ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ پیاسا فلم کے نغموں میں جو صدا بہار پن کا پہلو پوشیدہ ہے وہ آج بھی کسی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آج بھی اس فلم کے نغموں کے بول ہمارے کانوں میں ایک الگ طرح کا رس گھولتے ہیں۔ان نغمات کے الفاظ کچھ یوں تھے:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اسی طرح فلم کبھی کبھی کے ٹائٹل سونگ ”کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے“ آج تک کوئی نہیں بھولا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فلم کے گیت ساحر کو رہتی دنیا تک کے لیے زندہ کر گئے ہیں۔ یوں تو ساحر کے مقبول ترین گیت سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جیسے کہ ”ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی“، ”نیلے گگن کے تلے”،”میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی“، ”میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں“اور ”دامن میں داغ لگا بیٹھے“، ”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں“،”میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا“، ”رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی“،”آپ آئے تو خیالِ دلِ ناشاد آیا“،”بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو خوشی سنسار ملے“، ”جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو پیار سے پیار ملا“،”جب بھی جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ“، ”جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں“،”غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم“، ”مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں“، جیسے سدا بہار گیتوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔
فلموں کے علاوہ ان کی غزلیں اور نظمیں آج بھی اہل ادب میں جس شوق و جنون کی سی کیفیت سے پڑھی جاتی ہیں اس میں یقیناً ساحر اپنی مثال آپ ہیں۔آپ نے زندگی کے تقریباً ہر موضوع کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔
عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر انھوں نے الگ الگ نظمیں اور شاعری کی ہے۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
ساحر کی تمام زندگی ایک طرح سے زندگی کی تلخیوں و اداسیوں سے لبریز تھی جس کی جھلک ان کے کلام میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہے۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
جس محبت کے افسانہ کو صحیح انجام یا اس کی تکمیل تک لانا ممکن نہ ہو تو اس کیا خوبصورت ترغیب دیتے ہیں۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ویسے بولی وڈ میں جب کبھی بھی معروف نغمہ نگاروں کی بات چلتی ہے تو ساحر لدھیانوی کا نام سر فہرست آتا ہے۔ اْنھوں نے فلم انڈسٹری میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اپنی شہرت و مقبولیت کے جھنڈے نصب کیے۔ جو اوصاف و خوبیاں ساحر کو اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی ہیں وہ اْنکا شدتِ درد سے لبریز کلام اور انکے خیالات کی ندرت ہے۔ آپ نے عورت ذات کی ہمیشہ عزت کی اور اْسکے دکھ درد اور سماج میں جس طرح سے عورت ذات پر صدیوں سے ظلم و تشدد ڈھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے سبھی موضوعات کو ساحر نے اپنی شاعری میں جگہ دیکر خواتین کے دلی جذبات و کیفیات کو پیش کیا ہے اْس کی مثال شاید ہی دیکھنے کو ملے۔دراصل ساحر نے اپنی زندگی میں خود کی آنکھوں سے جن سماجی حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا اور جو سبق زندگی نما کتاب سے سیکھے۔ا ْنہی کو اپنی شاعری کی زبان میں قلم بند کیا۔یہ عظیم شخصیت25اکتوبر1980کو رحلت کر گئے مگر اپنے گیتوں کی بدولت آج بھی ہر دل میں زندہ ہیں۔