ریورنڈ فادر فرانسس ندیم او۔ایف۔ایم۔کیپ
ہم اگر آج خواب دیکھیں گے
لوگ کل انقلاب دیکھیں گے
اس دنیا میں دو قسم کے انسان بستے ہیں ایک وہ جو صرف اپنے آپ کو بنانے کی فکر میں بھاگتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو تاریخ رقم کر جاتے ہیں۔ ایک وہ جو نفرت اور دوریوں کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو امن، اتحاد اور محبت کے پل تعمیر کرتے ہیں۔ ریورنڈ فادر فرانسس ندیم بھی ایک نایاب شخصیت کا نام ہے جو پاکستان میں مذاہب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بین المذاہب مکالمہ اور کلیسیاؤں کے درمیان اتحاد اْن کی زندگی کا مشن اور مقصد تھا۔ریورنڈ فادر فرانسس ندیم 27 اکتوبر 1955 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔برکت مسیح گِل، آپ کے والد محترم ایک مضبوط شخصیت کے مالک اور محنت کش کسان تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ نہایت پارسا خاتون تھیں۔اپنے گھرانے میں آپ چار بھائیوں اور پانچ بہنوں میں سے چھٹے نمبر پر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ شہر سے حاصل کی۔ آپ 1973 میں سینٹ لارنسز اور سینٹ میریز ہائی اسکول سے میٹرک کی تعلیم حاصل کی۔
21اگست 1975 کوآپ نے کیپوچن برادری میں شمولیت اختیار کی۔16 مئی 1978کوآپ کی پہلی عہد بندی ہوئی اور 5مارچ 1984 کو دائمی عہد بندی ہوئی۔جس کے ساتھ ہی آپ نے مقدس فرانسس آف اسیسی کا پیروکار ہوتے ہوئے ماحولیات اور امن کی روحانیت کو فروغ دینے کا عہد کر لیا۔ آپ نے علم فلسفہ اور علم الہیات کی تعلیم فلپائن سے حاصل کی۔اس تعلیمی اور ایمانی سفر میں ریورنڈ فادر مورس جلال اور ریورنڈ فادر نتھانیل آپ کے ساتھی رہے۔ 14 ستمبر 1984 کو فضیلت آرچ بشپ ارمانڈو ٹرینڈاڈ کے دستِ مبارک سے آپ کی کاہنانہ مخصوصیت ہوئی۔
آپ کی پہلی تقرری سینٹ فرانسس چرچ کوٹ لکھپت میں ہوئی۔ بعد ازاں آپ نے سینٹ میریز گلبرگ لاہور، سینٹ جوزف پیرش لاہور۔کینٹ اورسینٹ جوزف پیرش سیالکوٹ سٹی میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ آپ جس پیرش میں بھی گئے آپ اپنی خدمت میں ثابت قدم رہے۔ آپ لوگوں کی خوشیوں اور غموں کو اپنی خوشیاں اور غم سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ عظیم کاہن اور عظیم پاسبان رہے ہیں۔
تیرہ شبی کی چادر میں بھی جگنو جگمگ کرتے ہیں
پتھر آنکھیں کیا روکیں گی روشنیوں کے حملوں کو
پاسبانی خدمات کے دوران آپ نے محسوس کیا کہ اقلیتوں کے ساتھ جگہ جگہ نہ انصافیاں ہو رہی ہیں۔مذاہب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور دوریوں کو دیکھ کر آپ نے بین المذاہب مکالمے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کر لیا۔ابتدا میں بین المذاہب مکالمہ اور کلیسیائی اتحاد صرف سیمینارز اور اعلٰی سطح پر میٹنگزتک محدود رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ مکالمہ زندگی کا مکالمہ بن گیا اور روزمرہ سرگرمیوں کی شکل اختیار کرگیا اور بین المذاہب مکالمہ اور کلیسیائی اتحاد آپ کا اْٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا اور اْوڑھنا بچھونا بن گیا۔پاکستان میں امن اور سماجی ہم آہنگی
کا خواب آپ کو گلی کوچوں میں لے جاتا۔
اسکولوں اور مدرسوں میں طلبہ و طالبات کی تربیت کرنے کے لئے تاکہ وہ پرامن شہری بنیں۔ آپ بے شمار سرگرمیوں کا انعقاد کرتے۔ اپنے اسکولوں میں پیس ایجوکیشن پروگرام کو متعارف کروایا۔آپ نے اسکولوں میں پیس کارڈز کی نمائش کو سالانہ سر گرمی بنا دیا۔ جس میں طلبا و طالبات رنگارنگ اور تخلیقی کار ڈز اور پوسٹرز بنایا کرتے تھے۔ جن کے ذریعہ سے امن کی ضرورت کو نمایاں کیا جاتا تھا اور بچوں کے امن کے خواب کو میڈیا کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچایا جاتا تھا۔
فضیلت مآب آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شاء کے ساتھ مل کر امن کی ایک اور مہم کا آغاز کیا۔ زیتون کا پودا امن کا پودا ہے۔ 2019 میں مقدس فرانسس آف اسیسی کی مصر کے سلطان المالک الکمیل کے ساتھ ملاقات کا 800 سالہ جشن منایا گیا۔ ریورنڈ فادر فرانس ندیم نے سارا سال ماحولیات اور امن کی روحانیت کو فروغ دینے کے لئے بے شمار سرگرمیوں کا انعقاد کیا۔ بیشمار امن کے پودے لگائے گئے اور بے شمار فکری نشستوں کا انعقاد کیا گیا،آپ نے الحمرا ہال۔لاہور میں مقدس فرانسس آف اسیسی کی تاریخی ملاقات کو ڈرامائی انداز میں پیش کر کے اس تاریخی واقعہ کو پھر زندہ کر دیا۔ یہ ڈرامہ ریورنڈفادر اشفاق انتھنی کی قیادت میں تیار کیا گیا تھا اور اس پروگرام کے مہمان خصوصی پاکستان میں پاپائی سفیر کرسٹوف زخیا الحصیص تھے۔ جنہوں نے اس پروگرام کو بے حد پسند کیا اور بین المذاہب مکالمہ کی سرگرمیوں کو سراہا۔
مسلم برادری میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آپ جب بھی مساجد یا مدرسوں میں مسیحی وفدکے ساتھ جاتے تو آپ کی راہ میں گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے آپ کے گلے میں عقیدت اور محبت کی مالا ڈالتے ہوئے آپ کا والہانہ استقبال کیا جاتا۔حکومت ِپاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو دو مرتبہ تمغہئ امتیاز سے نوازہ۔ پہلی مرتبہ2000 میں اور دوسری مرتبہ 2007 میں۔
بین المذاہب مکالمہ کے فروغ کا عروج اس عمل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے قائدین کے ساتھ مل کر ایک ہی پلیٹ میں ہم نوالہ ہوتے تھے۔ رفاقت اور شراکت کی روحانیت کا یہ ملاپ دونوں طرف سے تھا۔ آپ مخلص دوست تھے اور خدا نے آپ کو دوست بھی مخلص عطا کیے۔پاکستان میں جہاں کہیں کسی کے ساتھ زیادتی یا نا انصافی ہوتی توآپ انٹرفیتھ اور بین الکلیسیائی اتحاد کے دوستوں کے ساتھ فوری طور پر وہاں پہنچ جاتے۔آپ متاثرین کا دکھ بانٹتے اور انہیں حوصلہ دیتے اور حکومت ِوقت سے انصاف کا مطالبہ بھی کرتے۔
ہماری ذات پہ دوہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
امن اور دوستی کا یہ پیغام پاکستان کی حدود تک محدود نہ رہا۔آپ امن کے قافلے کی صورت میں انڈیا کے بارڈرز تک جاتے تاکہ انڈیا کی سیاسی قیادت اور لوگوں کو بھی امن اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا جاسکے۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانسیں رک جائیں
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
آپ ایک سچے اور وفادار پاکستانی تھے۔ وطنِ عزیز اور کلیسیاسے اپنی محبت کا اظہار آپ نے ادبی خدمات کے ذریعہ سے بھی کیا۔ ”یہ دیس ہمارا ہے“ ایک خوبصورت کتاب ہے۔ جس کے آپ مولف ہیں۔ اس کتاب میں قیامِ پاکستان میں اقلیتوں کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آپ کی خدمت پاکستانی قوم کے لیے ایک انمول سرمایہ ہے۔ آپ کیتھولک نقیب، ہم آہنگی میگزین اور کرسچین ویو کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ اس کے علاو ہ کیتھولک ادارہ ادبیات کے ایگزیکٹیو سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ آپ کی تمام تر ادبی اور بین المذاہب مکالمہ اور بین
الکلیسیائی اتحاد کی خدمت کیتھولک بشپز کانفرنس کے زیر سایہ تھی۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت نرالی ہے
ہاتھ میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
تقریبا تیس سالہ مکالمے کی خدمات کے دوران خداوند نے آپ کو یہ فضل بھی ادا کیا کہ آپ کی ملاقات عظیم ہستیوں کے ساتھ ہوئی جن میں مدر ٹریضہ آف کلکتہ، پوپ بینی ڈکٹ سولہویں اور پوپ فرانسس شامل ہیں۔
ریورنڈ فادر فرانسس ندیم او۔ایف۔ایم۔کیپ3 جولائی 2020کو خداوند میں سو گئے۔آپ وفادار کاہن،عظیم رہنما اور بین المذاہب و بین الکلیسیائی اتحاد کے متحرک اور انتھک علمبردار تھے۔ آپ نے اپنی کہانت کو اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں جیا اور منایا۔خداکاکلام،ساکرامنٹوں کی ادائیگی اور گلّہ کی پاسبانی آپ کی زندگی کا محور و مرکز تھا۔ریورنڈ فادر فرانسس ندیم چار مرتبہ یعنی بارہ سال کیپوچن برادری کے سردارِ اعلٰی رہے۔آپ کی قیادت میں کیپوچن برادری نے بہت ترقی کی ہے۔بہت سے برادران نے آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر پہلی اور دائمی عہد بندی کی۔آپ نے کیپوچن برادری کو متحد رکھنے کے لیے اور مضبوطی عطا کرنے کے لیے انتھک محنت کی تاکہ سب برادران مقدس فرانسس آف اسیسی کے نقشِ قدم پر چل کر زندگی بسر کریں۔
آپ اپنی ساری زندگی مختلف مذاہب اور کلیسیاوں کے مابین مکالمہ،اتحاد،ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔بقول مفتی سید عاشق حسین ”فادر فرانسس ندیم مذاہب کے درمیان پْل کی حیثیت رکھتے تھے۔
آپ کی مسیحی ادب،پاکستانی ثقافت،تعلیم و تربیت اور نوجوانوں کے لیے آپ کی شاندار خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بلاشْبہ ریورنڈ فادر فرانسس ندیم او۔ایف۔ایم۔کیپ امن کے سفیر تھے۔
ریورنڈ فادر فرانسس ندیم مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔
اُن کی وفات کے بعد انٹر فیتھ ڈائیلاگ اور بین الکلیسیائی اتحاد کے کارواں کے دوستوں نے اُن کو عظیم خراجِ تحسین پیش کیا۔
یسوع المسیح نے فرمایا جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اگرچہ وہ مر گیا ہو تو بھی وہ زندہ رہے گا۔
ریورنڈ فادر فرانسس ندیم کا امن اور مکالمہ کا یہ مشن زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
مر گئے تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے