جان ملٹن(انگریزی اور لاطینی کے عظیم شاعر)

جان ملٹن9دسمبر1608کو لندن میں پیدا ہوئے۔ سینٹ پال سکول اور کرائسٹ کالج، کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے انگریزی اور لاطینی دونوں میں شاعری کی۔ شروع میں وہ مذہبی زندگی میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن بعد میں یہ ارادہ ترک کر دیا۔ آخر کار کیمبرج میں تعلیم ختم کرنے کے بعد جان ملٹن نے اپنی پوری توجہ شاعری پر صرف کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کئی نظمیں لکھیں جن میں ایک نہایت عظیم نظم لسی ڈس (Lycidas) بھی ہے جو انہوں نے اپنے دوست کنگ ایڈورڈ کی وفات پر لکھی تھی۔ 1638ء میں اپنی ماں کے انتقال کے بعد وہ اٹلی گئے۔ وہاں سیر کے علاوہ کافی مطالعہ بھی کیا اور اہم شخصیتوں سے ملاقات کی۔ ان میں گیلیلیو بھی تھا۔ ایک سال بعد واپس آیا اور بڑے زور شور کے ساتھ کلیسیا میں اصلاح کی مہم میں لگ گیا۔ کئی رسالے لکھے۔ 1643ء میں اس نے میری پال کے ساتھ شادی کی جو ایک سال بعد اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ اسی سال ملٹن نے چار رسالے لکھنے شروع کیے جن پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ ایک میں اْس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ بن سکے تو طلاق لے لینا اخلاقاً جائز ہے۔ اس نے ایک اور رسالہ پریس کی آزادی پر لکھا جس کا عنوان آریوپوگٹیکا(Areopogitica) تھا۔ اْسے اِس کی نثری تصنیفات میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کی پریس پر لگائی ہوئی سنسر شپ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ ایک اور رسالہ میں اس نے اس پر بحث کی ہے کہ رعایا اپنے نااہل بادشاہ کو تخت سے ہٹا سکتی ہے اور اسے موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر جان ملٹن کو کرامول نے اپنی حکومت میں وزیر بنا لیا اور اسے بیرونی زبانوں کا محکمہ سپرد کیا گیا۔اسی زمانہ میں اس نے برطانوی عوام کی مدافعت میں کئی رسالے لکھے۔

چونکہ ملٹن کی آنکھیں بچپن سے بہت خراب تھیں۔ جب اتنا سرکاری کام اس کے سر پر آ پڑا تو آنکھیں بالکل جواب دے گئیں اور وہ بالکل اندھا ہو گیا اور اپنے کام کو اپنے سیکرٹری کی مدد سے کرنے لگا۔

1663ء میں ملٹن نے الزبیتھ من شل سے شادی کر لی۔ جان ملٹن آخر تک مشترکہ دولت کی حمایت کرتا رہا اور جب باد شاہت دوبارہ قائم (1660ء) ہو گئی تو کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس کی بعض کتابیں جلا دی گئیں۔ پھر عام معافی میں اسے بھی معاف کر دیا گیا اور جس کے بعد سے وہ خاموش زندگی گزارنے لگا۔

وہ ایک زمانہ سے ایک شاہکار نظم لکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اب ایک طویل نظم بلینک ورس میں لکھی جو 1667ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بارہ جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا نام اس نے   ”فردوسِ گم شدہ“ (Paradise Lost) رکھا۔ ہم عصروں نے بے حد تعریف کی اور اس کے بعد سے یہ عظیم رزمیہ نظموں میں شمار ہونے لگی۔ اس میں آدم اور حوا کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔

جب وہ باغ عدن میں تھے۔ اس کے ذریعہ اس نے اس دنیا میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ سمجھائی ہے۔ ”فردوسِ بازیافتہ“ (Paradise Regained) اس کی ایک اور طویل بلینک ورس نظم ہے جو چار جلدوں میں ہے۔ اس میں اس نے یہ بتایا ہے کہ کس طرح یسوع آدم سے برتر تھے۔ کس طرح شیطان یسوع کو آزمانے میں ناکام رہا۔ اسی کے ساتھ اس نے یونانی ٹریجڈی کے نمونہ پر ایک ڈرامہ بھی لکھا جس کا قصہ انجیل مقدس ہی سے لیا گیا تھا۔ ملٹن اگرچہ بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ تھا لیکن بہت ساری چیزوں کے بارے میں اس کے اپنے ذاتی عقائد تھے جو اس نے اپنے ایک رسالہ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ رسالہ اس کی زندگی میں شائع نہیں ہوا۔ اس کا سراغ بہت بعد میں لگا اور پھر یہ شائع ہوا۔

جان ملٹن 1652ء میں بینائی سے محروم ہو گیا۔ اس نے بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی اخلاقی نظم ”Paradise Lost“ ہے۔ علامہ اقبال بھی ملٹن کی شاعری اور نثر جو ذاتی اعتقاد‘ آزادی اور خودارادیت کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے‘ سے متاثر تھے۔ آپ کا ارادہ تھا کہ آپ واقعہ کربلا کو ملٹن کی نظم کی طرح شاعرانہ انداز میں لکھیں گے۔

جان ملٹن کے کلام کو نہ صرف انگریزی ادب میں بلکہ عالمی ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی بعض نظمیں دنیا کے اعلیٰ ترین ادب میں شمار کی جاتی ہیں۔ جان ملٹن کی شاعری کی عظمت پر سب کو اتفاق ہے لیکن اس کی نجی زندگی، اس کی سیاست اور اس کے مذہبی خیالات کے بارے میں ہمیشہ سخت اختلاف رہا ہے۔یہ عظیم شاعر8نومبر1674کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail