ابراہام لنکن
امریکہ کاسولہواں صدرابراہام لنکن امریکہ کابلکہ تاریخ کے نہایت مقبول اور کامیاب سیاسی قائدین میں سے ایک ہے۔آخراس کانام بنیادی فہرست میں کیوں شامل نہیں کیاگیا؟کیا پینتیس لاکھ غلاموں کو آزاد کروانا معمولی کارنامہ ہے؟
ہاں ایسا ہی ہے۔اس دور کے عمومی تناظر میں اہم ان قوتوں کاباآسانی ادراک کر سکتے ہیں۔جو دنیا میں سے غلامی کوسرسے ناپیدکردینے کے درپے تھیں۔
لنکن کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی متعدد ممالک غلامی کوممنوع قراردے چکے تھے۔اس کی موت کے بعدپینسٹھ برسوں میں متعدد دیگر ملکوں میں ایسے قانون منظور ہوئے۔لنکن کوالبتہ اعزاز ملتاہے کہ اس نے تاریخ کے اس ناگزیر عمل کوتیز ترکردیا۔
یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لنکن کاسب سے اہم کارنامہ جنوبی ریاستوں کی علیحدگی پسندی کے مقابلے میں امریکہ کومسلسل متحد رکھنا ہے‘اور صرف یہی ایک کارنامہ اس کو اس فہرست میں شامل ہونے کا استحقاق دینا ہے۔
لنکن کامنتخب ہوجانا دراصل جنوبی ریاستوں کی علیحدگی پسندی کے خلاف ڈھال ثابت ہوا۔لیکن یہ امر بھی واضح نہیں ہے کہ اگر لنکن کی جگہ کوئی دوسرا صدربن جاتا ہو کیا تب بھی خانہ جنگی کاخاتمہ ہوتا یا نہیں۔بہرحال شمالی ریاستوں نے جنگ شروع کی تو اس کے پاس بڑی آبادی تھی نیزوہ صنعتی پیداوار کے حوالے سے بھی عظیم تھیں۔شمالی اور جنوبی ریاستوں کے بیچ لسنانی،مذہبی‘تہذیبی اور تجارتی اشتراک نہایت اہمیت کاحامل تھا۔
یہ قیاس اغلب ہے کہ وہ علی الاخریکجا ہوہی جاتی۔
اگریہ انتشار کادور بیس سال کے دورانیہ کاہوتا یاپچاس سال کے دورانیہ کاتب بھی یہ تاریخ عالم میں کوئی بڑاواقعہ نہ ہوتا۔(یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر جنوبی ریاستیں اس سے ملحق نہ ہوں تب بھی امریکہ دنیا کاآبادی کے اعتبار سے چوتھا بڑا ملک اور ایک ممتاز صنعتی طاقت شمار ہوگا)۔
توکیا اس کامطلب یہ ہے کہ لنکن ایک یکسر غیراہم شخصیت تھا؟ہرگز نہیں!اس کی مساعی اس دور کے لاکھوں افراد کی مساعی پر اثرانداز ہوئی۔لیکن یہ حقیقت بھی اسے اس قدر عظمت کے درجے پر نہیں لے جاتی‘جہاں مہاویر جیسے لوگ موجود ہیں‘جن کے اثرات صدیوں تک باقی رہے۔