یوم والدین
دوستو! اقوام متحدہ نے یکم جون کو والدین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔بچوں کے ساتھ و ا لد ین کی بے لوث وابستگی اور اس رشتے کی پرورش کے لئے ان کی زندگی بھر کی قربانیوں کے لئے دنیا کے تمام حصوں میں یہ دن منا یا جا تا ہے۔ 1994 میں ہی اس چھٹی کو امریکی ریاست میں باضابطہ طور پر قبولیت ملی۔صحیح وقت کی نشاندہی کرنا مشکل ہے کہ جب والدین کے عا لمی دن کے بارے میں خیال پیدا ہوا تھا۔ تاہم، اس دن کو والدین کے ا حترام اور ان کی قر با نیوں کو خر ا جِ تحسین پیش کر نے کے لئے منا یا جا تا ہے۔ والدین کا دن بہت سے مذہبی، سما جی اور منتخب رہنماؤں کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے معاشرے میں والدین کے ذمہ دارانہ کر دار اوراْن کی ا ہمیت کو اْ جا گر کرنے کے لئے ایک موقع کی ضرورت کو محسوس کیا۔تا کہ بچوں اور نئی نسل کے د ر میا ن وا لد ین کے مثالی ما ڈل کو برقرار رکھا جا ئے۔یوم والدین کا باقاعدہ آغاز 1994 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی مخلصانہ کوششوں سے ہوا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں اپنی صدارتی مدت کے دوران، کلنٹن نے محسوس کیا کہ یوم ِوالد اور یوم ِو الدہ تو والدوں اور ماؤں کا ا نفر ا د ی ا عزازہے جبکہ مناسب طریقے سے بچوں کی پرورش کے لئے دونوں کی موجودگی اور مشترکہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔صدر بل کلنٹن یوم والدین کے قیام کے لئے کوشاں رہے اور اس کا احساس ْاس وقت ہوا جب انہوں نے ''بچوں کی پرورش میں والدین کے کردار کو پہچاننے، ان کی بحالی اور ان کی حمایت کرنے'' کے لئے ایک قرارداد پر دستخط کیے۔ اس قرار داد کو امریکی کانگریس نے مربوط انداز میں اپنایا۔اوراب یو مِ والدین امریکہ کے علاوہ دوسرے بہت سے ممالک میں بھی منایا جاتا ہے۔ اس کا انعقاد جہاں بھی کیا گیا ہے، بچوں کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ والدین کے لئے اظہار تشکر کریں اور ان کی پرورش میں ماں با پ کی لازوال کوششوں کا اعتراف کریں۔والدین کا دن منانے کی روایت نسبتا نئی ہے۔ لیکن چند ہی سالوں میں پوری دنیا نے خوشی اور مسرت کے ساتھ اس دن کو ا پنا لیا ہے۔ اگرچہ والدین ہر روز عقیدت کے مستحق ہیں۔ لیکن اپنے بچوں کے لئے ان کی قربانیوں کو سال میں کم از کم ایک بار بہت پیار اور محبت کے ساتھ یاد رکھنے کے تصور کو یورپ میں پہچان ملی ہے۔
والدین بچے کا پہلا رول ماڈل اور ا ْ ستا د ہو تے ہیں کیو نکہ بچے اپنے والدین کی تقلید کرتے ہیں۔ والد ین بچے کو مثبت اور اچھی زندگی گز ارنے کے طو ر طر یقے سیکھا نے نیزز ند گی کو سنو ا رنے،نکھا ر نے اور درست سمت د ینے میں نہ ختم ہو نے و ا لا فر یضہ ادا کرتے ہیں۔ بچوں کی نشوونما میں والدین کا کردار اور ذمہ دا ر ی کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے والدین ہماری جڑیں ہیں جو زیرزمین ہماری مدد کرتی ہیں۔ اگرچہ وہ زیرزمین پوشیدہ ہو تے ہیں لیکن ان کے بغیر ہمارا وجود ناممکن ہے۔ کیو نکہ ماضی کے بغیر حال نہیں ہوتا ہے، اسی طرح بچے والدین کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ عظیم ر شتہ خو ن کا ر شتہ ہے جو نہ جو ڑنے سے جڑ تااور نہ تو ڑ نے سے ٹو ٹتا ہے۔یہ ا ز لی و ا بستگیاں ہیں۔تما م ر شتو ں سے ا ہم تر ین ر شتہ ہے۔با ئبل مقد س میں یشو ع بن سیر ا خ کی کتاب (اس کے 7 با ب کی 29 تا 30 آیا ت)میں لکھا ہے۔ا پنے با پ کی ا پنے سا رے دل سے عز ت کر اور ا پنی ماں کے دردِزہ کو فر ا موش نہ کر۔یا د ر کھ ا نہی کے و سیلے سے تو ہستی میں آیا۔تو جو کچھ ا نھوں نے تیر ے و ا سطے کیا تْو اْس کے بد لے میں کیا دے گا۔یقینا و ا لد ین کی بد و لت ہم ہستی میں آئے ہیں۔ جب ہما ری زند گی بنجر ز مین کی ما نند ہو تی ہے تب و ا لد ین ہی اسے زر خیز کر کے سر سبز اورشا د ا ب بنا تے ہیں۔ وہ کماتے ہیں اور بچو ں کے لئے کام کرتے ہیں۔ماں کے پا س ہما ری ہر مشکل کا حل ہو تا ہے اور اسی کی دعاؤں کی بد و لت ہم کا میا ب ہو تے ہیں۔با پ وہ ہستی ہے جو جیتے مر ضی بْر ے حا لا ت ہو ں اولا د کونو ا ب بنا کر ر کھتا ہے۔ جب سا ری د نیا ہما رے خلا ف ہو جا ئے اور ہم ہمت ہا ر جا ئیں تو ان مشکل حا لات میں بھی با پ ہما ر ے ساتھ کھڑا ہو تا ہے۔ بے شک، ہمارے والدین روشنی کی کرنوں کی طرح ہماری تاریک دنیا میں چمکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے والدین ہماری زندگی کا سب سے ناگزیر حصہ ہیں۔والدین کے لئے ان کے بچے سب کچھ ہیں اور وہ اپنے بچو ں کے چہروں پر مسکراہٹ د یکھنے کے لئے کچھ بھی کرجا تے ہیں۔ خود کے لئے نئی اور بہتر چیزیں خریدنے کی بجائے والدین اپنے بچوں کو پہلے رکھتے اور اس بات کو یقینی بنا تے ہیں کہ وہ خوش اور مطمئن رہیں۔اپنے آپ میں والدین بننا ایک کل وقتی ملازمت کی طرح ہے۔یہ ا یسی نو کر ی ہے جس میں نہ تو کو ئی تنخو ا ہ ملتی ہے نہ ہی کو ئی چھٹی ہو تی ہے یعنی جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بچوں کی دیکھ بھال کرنا، ان کے ساتھ معیاری وقت گزارنا،ان کے سا تھ کھیلنا، انھیں پڑھانا، ان پر نگاہ رکھنانیز یہ فہرست کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ جب سے بچے اس د نیا کی ر و نقوں میں آ نکھ کھو لتے ہیں تب سے وا لد ین ان کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے ہمیشہ فکر مند ر ہتے اور بچو ں کی دیکھ بھال کرنے، ہر بیماری سے بچا نے اور علاج کروانے میں دن رات ایک کر د یتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ خوبصورت رشتہ قائم کرنے کے لئے ا ن کے سا تھ وقت گزارنا ضر و ر ی ہو تا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے والدین اپنی معاشرتی زندگی کو، اپنے دوستوں کواور پارٹیوں و غیرہ میں جا نانیز ا پنی تما م ترجیحات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔یہ حقیقت ہے اور والدین کبھی نہیں بتائیں گے کہ ا نہو ں نے آپ کے لئے کیا کچھ کیا۔ ماں کبھی نہیں بتا ئے گی کہ وہ کتنی با ر گیلے بستر پر سوئی،کتنی گر می میں کھا نا پکایا،کتنی سر د ی میں کپڑ ے د ھوئے، کتنی را تیں جا گ کر گز ا ری۔اور با پ بھی کبھی نہیں کہتا کہ ا ْس نے کتنی کڑی د ھو پ بر دا شت کی،کتنی با ر ا پنے ا فسران کی با تیں سْنی، کتنی با را پنی ضر و رتو ں کو بھلا د یا،کتنی سر دی میں کام کیا۔ ا یک شا د ی شد ہ جوڑے کی ا پنی ذ ا تی ز ند گی تو بچے کی ولادت کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔کیو نکہ بچے ہر جگہ اپنے والدین کے سا تھ ر ہنے کو تر جیح د یتے ہیں، ان سے بے شمار سوالات کرتے ہیں، ہمیشہ ان کے ساتھ ر ہنا اور سونا پسندکر تے ہیں، اور والدین ان تمام چیزوں کو چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔والدین پورے خاندان کے لئے روزی کمانے کے لئے سخت محنت کر تے اور خو د پر خرچ کرنے کے بجائے بچو ں کے مستقبل کو بہتر بنا نے میں لگا د یتے ہیں۔پھر جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور خود کام کرنا شروع کرتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ دراصل رقم کمانا کتنا مشکل ہے۔و ا لد ین کی قر با نیوں کو الفا ظ د ینا مشکل ہی نہیں با لکل نا ممکن ہے۔
ٓآج کے جد ید دور میں کچھ خاندانوں میں رشتوں کے تقدس کو پا مال کیا جا رہا ہے۔ والدین کو مناسب احترام نہیں دیا جاتا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔جبکہ ہمیں یہ نہیں بھو لنا کہ ما ں کی د عا ؤں سے ہمیں سب کچھ ملتا ہے اور با پ توبچو ں کی جیت کی خا طر اپنا سب کچھ ہا ر جا تا ہے۔ جبکہ ا کژ زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے انہیں اپنے ہی بچے مسترد کردیتے ہیں۔ ہمیں یہ یا د ر کھنا چاہئے کہ والدین کے بغیر گھر، گھرنہیں مٹی کے د ھیڑبن جاتے ہیں۔ ما ں باپ کے پاس تمام قیمتی تجربہ اور حکمت ہو تی ہے۔ اس کے علاوہ، ان سے ہمیں جس قسم کی غیر مشروط محبت ملتی ہے، کوئی دوسرا شخص ہمیں اس قسم کی محبت نہیں دے سکتا ہے۔ ہمیں اپنے والدین کو اپنے سا تھ رکھنا چاہئے اور ان کی محبت اور حکمت کی روشنی میں رہنا چاہئے۔ آج، خود غرضی کے اس دور میں بھی جہا ں ہم کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتے ہیں ا یسے حا لا ت میں بھی صر ف و ا لد ین ہو تے ہیں جو بچو ں کو کبھی د ھو کا نہیں دے سکتے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہو جاتے ہیں، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی بچوں سے اتنا پیار نہیں کرے گا جتنا والدین کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بے لوث، غیر مشروط محبت کا اصل معنی سکھاتے ہیں۔ والدین اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف اور صرف اپنے بچوں کے لئے وقف کرتے ہیں۔یو مِ و ا لد ین منا تے ہو ئے ہم بچوں کو چا ہئے کہ ا پنے و ا لد ین کو پیا ر کر یں،ان کی عز ت کر یں کیو نکہ و ا لد ین کی عز ت کر نا حکمِ خد ا و ندی ہے اور ا ن کی خد ما ت کو سلا م پیش کر یں۔کیو نکہ ہمیں ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی انہیں ہماری ضرورت ہے!
آپ سب کو عالمی یومِ والد ین مبا ر ک ہو۔