گِرکر سنبھلناکمال ہے۔۔!
دوستو! منزل انہیں نصیب ہوتی ہے جو منزل حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ہر انسان زندگی میں کامیاب ہونے کی خواہش ر کھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آگے بڑھے اور اسے اپنی منزل بِنا کسی مشکل کے حاصل کر لے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے منزل تک پہنچنے کیلئے مختلف رکاوٹوں کو پارکرناہوتا ہے۔ ہم اکثر راستے میں پڑی ہوئی کانٹوں کی باڑ کو ْاٹھانے کی بجائے راستہ تبدیل کر لیتے ہیں یا اپنی منزل ہی بدل لیتے ہیں۔
دنیا میں کوئی بھی کام چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی جس کیلئے ہم نے محنت کی ہوتی ہے اگر ہمیں اس میں ناکامی ہوتی ہے تو ہمیں بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ دلی اطمینان و سکون ہوتاہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری محنت کی۔آزمائشیں انسان کی زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ اگر ہم محنت کرتے رہیں گے تو یقیناً کامیابی ہمارا مقدر بنے گی کیونکہ محنت میں عظمت ہے۔اپنی زندگی میں ناکام ہونا کوئی بھی نہیں چاہتا۔ اگر زندگی میں کبھی بھی ہمیں ناکامی کا سامنا ہو تو ہمیں اپنے حوصلے کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے نا کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکتا۔مثال کے طور پراگر ہمیں چھت پر جانا ہے تو ہمیں تمام سیڑھیوں پر ایک ایک کر کے قدم رکھنا ہو گا، چھلانگ لگا کر ہم ایک دم سے چھت پر نہیں پہنچ سکتے اور جو اس طرح پہنچنے کے کوشش کرتے ہیں وہ منہ کے بل گرِتے ہیں۔ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور جب ہم اس طریقہء کار سے ہٹ جاتے ہیں تب ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جب انسان ناکام ہوتا ہے تو اسے دکھ تو بڑا ہوتا ہے لیکن جب ناکامی کے بعد وہ صبر،حوصلے اور استقلال سے کام لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی کی خوشی دگنی ہوتی ہے۔کیونکہ اس کیلئے دن رات محنت کی ہوتی ہے۔
دنیا کی تا ر یخ ایسے لوگوں سے بھری پڑ ی ہے جو زندگی میں ناکام تو ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری۔اور اسی ہمت کی بِنا پر آج اپناایک نام چھوڑ گئے۔ اس کی ایک مثال ایڈیسن ہے جس نے 999 کوششیں کیں اور 1000ویں دفعہ کامیاب ہو گیا اور اس نے وہ طریقہ دریافت کر لیا جس سے بلب بنایا جا سکتا تھا۔ ایڈیسن نے ہمت نہیں ہاری اپنی کوشش میں لگا رہا اور آخر کامیاب ہو گیا۔ناکامی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے اور دنیا میں کامیابی صرف انہیں لوگوں کو ملتی ہے جہنوں نے ناکامی کا سامنا کیا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں بعض ذہنی پسماندہ بچوں کو گفتاری مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس وجہ سے وہ بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ جب کوئی بچہ ایک یادو بار فیل ہوتا ہے تو وہ ہمت ہار دیتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکتا یا پھر والدین اس کا ساتھ نہیں دیتے جس وجہ سے وہ غلط راستوں کا انتخاب کر لیتا ہے۔حالانکہ ہمیں ایسے بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس طرح کے بچے بھی آسمان چھو سکتے ہیں۔
البرٹ آئن سٹائن جو کہ انتہائی ذہانت کے حامل سائنسدانوں میں سے ہیں۔ انہیں بچپن میں بولنے میں دشواری کاسامنا تھا۔ جس وجہ سے انہیں سکول سے بھی نکال دیا گیا۔ لیکن ان کی ناکامیاں اْنہیں 1921 میں طبیعات کی خدمات میں نوبل پرائز حاصل کرنے سے نہیں روک سکی۔
بل گیٹس جو کہ مائیکروسافٹ کے بانی ہیں انہیں اپنی تعلیم ادْھوری چھوڑنی پڑی۔اس کے بعد کاروبار شروع کیا جس میں مزید گھاٹا ہوا لیکن ان سب ناکامیوں کے باوجود بل گیٹس نے مائیکروسافٹ بنا لیا ان کا کہنا ہے کہ'' کامیابی کا جشن منانا ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھا جائے ''یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ہماری تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہنوں نے اپنی زندگیوں میں ناکامی کا سامنا کیا اور اپنے حوصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ہماری سوچ مثبت یا منفی ہوتی ہے جو ہمیں کامیابی یا ناکامی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر تو ہم ناکامی کے بعد یہ سوچیں کہ میں ناکام کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ پھر ان تمام وجوہات کو دْور کرنے کی کوشش کریں تو کامیابیوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس مقولے سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر تم اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہو تو اپنی عادات کو بدلو اور اگر عادات کو بدلنا چاہتے ہو تو سوچ کو بدلو اور سوچ کو بدلنے کیلئے اردگرد کے ماحول کو بدلنا ضروری ہے۔ کیونکہ انسان کی سوچ ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا ماحول ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ کامیاب تو وہی ہوتے ہیں جو بار بار گرتے ہیں، کیونکہ کبھی نہ گِرنا کمال نہیں بلکہ گرِ کے سنبھلنا کمال ہے کیونکہ ستارے ہمیشہ اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔