کتاب ایک بہترین ساتھی
وہ تمام عادات جو انسان کو عام انسان سے اِک منفرد”شخصیت“ بنا دیتی ہیں اُن عادات میں سے ایک عادت کتا ب پڑھنے کی ہے۔ کیونکہ کتاب ایک نہایت ہی بہترین ساتھی ہے۔ جو انسان کو باطنی طور پر خوبصورت بناتی ہے۔اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کتاب میں لکھے الفاظ کی طاقت، خیالات اور لکھاری کے تجربات کا پڑھنے والے کی شخصیت پر گہرا اثرہوتا ہے۔ کتاب انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔کتاب کی یہ خوبصورت صفت ہے کہ یہ اپنے لکھاری اور قاری دونوں کو زندگی دیتی ہے۔کتاب پڑھنا اِک ایسا مشغلہ ہے جو ایک طرف تو ہمار ی سوچوں کو وسعت دیتا ہے۔اور دوسری طرف ہمارے ذہنوں کوروشن کرتا، تاریک ہونے سے بچاتا،اور خیالات کو تازگی بخشتا ہے۔کتاب پڑھنے کاعادت اور شوق وقت کے ساتھ بڑھتاہے۔کیونکہ ابتدئی دِنوں میں ہمیں کتاب کا انتخاب کرنے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ یہ شوق اور عادت یا تو ہم کسی اپنے عزیز کو دیکھ کراپناتے ہیں۔ یا تو کوئی اور اِس شوق اور عادت کی آبیاری ہمارے ذہن میں کرتاہے۔ اِس حقیقت کا اندازہ اِس واقع سے لگایا جا سکتا ہے۔شالوم اُس وقت ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا اور اْس کا بڑا بھائی الیکٹریکل انجینئرر نگ کے لئے لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ جب کبھی چند چھُٹیاں گزارنے کے لیے گھر آتا تو اپنے بھائی کے لئے کبھی پاکٹ سائز انگریزی کی ڈکشنری لے آتا تو کبھی کوئی چھوٹی سی کتاب۔ یہ سب دیکھ کر شالوم کو شدید غصّہ آتااور اْس کے بڑی دفعہ روکنے کے باوجود وہ اِس عمل کو اکژ دوہراتا۔شایدشالوم کی سوچ اُس وقت اِ س حقیقت کو پہچاننے سے قاصر تھی۔ کہ یہ میرے ذہن اور زندگی میں اِک اچھے شوق اور عادت کی آبیاری ہو رہی ہے۔اْس کے بڑے بھائی کے اِس خوبصوت عمل کے بہترین مثبت نتائج وہ آج اپنی زندگی میں دیکھتا ہے۔
اْس کا یہ تجربہ ہے کہ اچھی کتاب انسان کو اپنی زندگی پر سوچنے اور اُس کو اُور خوبصورت بنانے کی طرف مائل کرتی ہے۔شالوم کی زندگی کو جس کتا ب نے نئی جہت دی وہ نامور شخصیت اور موٹیویشنل سپیکراور لائف کوچ روبن شرما کی کتاب”Who Will Cry When You Will Die“ ہے۔ اِس کتاب نے اْسے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میں اِس زمین پر زندگی گزارنے کے بعد اِس کو چھوڑتے وقت آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جاؤں گا؟کیا میں کہیں بے مقصد زندگی تو نہیں گزار رہا؟یامیری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کی بے مقصد زندگی کو ”مقصد“ دیتا ہے۔اور انسان کو بے مقصد زندگی گزارنے سے بھی بچاتا ہے۔ تاکہ اِنسان اِس زمین پر رہتے ہوئے اپنے حصّے کی جوت جلاتا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اِنسان اپنی بنیادی ضروریات کو مقصدِحیات سمجھ کر ساری زندگی اِن ضروریات کو پوراکرنے میں لگا رہتا ہے۔ اور اُس کو اپنی زندگی کے اختتام پر اِس حقیقت کا پتا چلتا ہے، کہ ساری زندگی وہ جس کو مقصد سمجھتا رہا وہ تو ضروریات تھیں۔اور اِب وہ بے مقصد زندگی گزار کر اِس جہانِ فانی سے رحلت کررہا ہے۔اچھی کتاب مثبت سوچ کو جنم دیتی ہے۔ اور مثبت سوچ مثبت زندگی گزارنے میں ہمار ی راہنمائی کرتی ہے۔ اُن تمام وجوہات میں سے جو ہماری زندگی میں منفی پن لاتی ہیں ایک وجہ کتابیں نہ پڑھنا بھی ہے۔
آج ہمارے معاشر ے کا اِلمیہ بھی یہی ہے کہ ہماراکتاب سے رشتہ محدود ہو کررہ گیا ہے۔ہم کتاب کو پڑھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ آج غیر نصابی کتابیں پڑھنے کے عمل کو وقت کو ضائع کرنے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اور غیر نصابی کتابیں پڑھنا فارغ لوگوں کا مشغلہ سمجھا جاتاہے۔ آج ہمارے پاس موبائل فون پر وقت ضائع کرنے کے لیے بہت سا وقت ہے لیکن کتاب پڑھنے کے لیے دِن میں پندرہ منٹ بھی
نکالنا مشکل ہے۔آج گھنٹوں گھنٹوں موبائل استعمال کرنے والے کو شاباش اور کتاب پڑھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے یاکہہ دیا جاتا ہے کہ کم پڑھا کرو کہی پاگل نہ ہو جانا اور تم نے کون سا اقبال بن جانا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کتاب نہ پڑھنے کی وجہ سے:
ہماری سوچ منجمد ہوگئی ہے۔ہماری سوچ بدبوُدار ہو گئی ہے۔ہماری سوچ محدود ہو گئی ہے۔اِنقلابی سوچ کا بحران ہو گیا ہے۔
آئیں اِس محدود کو لامحدود سے، بحران کو افرات سے، بد بُوکو خوشبو سے بدلے۔اور یہ اُسی وقت ممکن ہے۔ جب ہم کتاب پڑھنے کی عادت کو اپنائیں گے کیونکہ کتاب سے بہترین ساتھی کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔