موجودہ خاندانوں میں محبت بھر ے الفاظ کی ضرورت
کہتے ہیں کہ ا یک دوسر ے کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے ایسا طرز گفتگو ضروری ہے جو مثبت پہلوؤں پر مشتمل ہو۔ تاہم بائبل مقدس بھی نہ صرف گفتگو کے روشن پہلو کو اپنانے کی تلقین کرتی ہے بلکہ ہمیں اس کے منفی پہلو کے متعلق بھی تنبیہ کرتی ہے کہ بدگوئی اور تکرار سے پرہیز کریں۔اور جب با ت خا ندا ن میں بچوں کی پرورش کی ہو تب بالخصوص گھر میں ایسے ماحول کا ہونا ضروری ہے جہاں محبت بھر ے الفاظ سننے میں آئیں۔ایسے الفاظ والدین اور بچوں کے درمیان رابطے اور رشتے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ایک مرتبہ دودھ پیتے وقت بچے کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس گرِ کر ٹوٹ گیا اْس کی ماں نے گھبرا کر بچے کی طرف دیکھا مگر جھڑکنے کی بجائے اْسے کہا بیٹا تم نے گلاس اپنی کہنی کے قریب رکھ دیا تھا اس لیے ٹوٹ گیا اِن الفاظ کے سنتے ہی بچے کے چہرے پر اطمینان کی لہردوڑ گئی اس لئے کہ ماں کے الفاظ کا مقصد بچے کو جھڑکنا یا شرمندہ کرنا نہ تھا بلکہ ان سے صرف اس کی رہنمائی کرنا تھا۔ تاکہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہ کرے۔اب اسی شام جب سونے کا وقت ہوا تو وہی بچہ بستر پر جانے کے لئے رضامند نہیں تھا بلکہ وہ اصرار کر رہا تھا کہ اسے مزید کھیلنے کی اجازت دی جائے،تو ماں نے ا سے پْر زور لیکن تحمل بھرے لہجے میں بستر پر جانے کے لیے کہا۔لیکن جب وہ اس کے باوجود اپنی جگہ سے نہ ہلانا تو ماں نے بچے کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا اور بستر کی جا نب لے گئی۔ماں جانتی تھی کے بچہ اس وقت مزا حمت کرنے پر مائل ہے لہٰذا اس نے اسے صبر و تحمل اور مستقل مزاجی سے کام لیتے ہوئے سمجھایا کہ بیٹا رات کے وقت سونا چاہیے۔ کیونکہ خدا نے رات آرام کرنے کے لیے بنائی ہے اور دن کھیلنے کے لئے اور کام کرنے کے لئے۔ یہ بھی سمجھا یا کہ بچوں کے لئے رات کی نیند بے حد ضروری ہے کیونکہ اس سے ان کی صحت کی اچھی ہوتی ہے۔
ا یسا سنتے ہی بچے نے اپنی ضد چھوڑ دی اور بستر کی طرف چل پڑا۔ یہاں ہمیں کلام مقدس کی وہ آیت یاد آتی ہے کہ
”نرم جو اب غصے کوپھیر د یتا ہے پر کر خت با ت غضب ا نگیز ہو تی ہے“۔(امثال ۵۱ باب ۱ آیت)
گھر یلو و ا قعے کی اس مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ اْس ماں نے اپنے گھر کے ماحول میں نرم رویہ قائم کر رکھا تھا۔ یہی نرم رویہ اور حوصلہ افزائی کے الفاظ اس کے ہمدرد اور مہربان دل میں تشکیل پاتے اور زبان سے صادر ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے الفاظ کی پیروی عملی اقدام سے بھی کرتی تھی۔بچے کے حکم نہ ماننے کی صورت میں اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا، بستر کی طرف چل دی جس سے بچے پر ظاہر ہوگیا کہ ماں کے ارادے میں کسی لچک کی گنجائش نہیں لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس ماں کے احکام کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی۔
ا یسے خا ند ا ن جن میں ایک دوسرے کے ساتھ غصے سے بات کی جا ئے۔ بڑ ے چھو ٹو ں کے سا تھ بد تمیز ی سے پیش آ تے ہوں۔وہاں
خا ندا ن کے ا فر اد ایک دوسرے کے بارے میں کیا احساس رکھتے ہوں گے؟ کیا اْس گھر کے بچے پرْسکون ہوتے ہیں یا مضطرب؟یقینا پْر سکو ن نہیں ہو سکتے۔ان حا لات میں یا ایسے ماحول میں پر و ر ش پا نے وا لے بچوں کی ذ ہنی و جسما نی نشو ونما ہی متا ثر نہیں ہو تی بلکہ ان کی ذ ہنی صلا حیت پر بھی بْر ا اثر ہو تا ہے۔اس لئے مو جو دہ حا لا ت میں ضر و ر ی ہے کہ خا ندا نو ں میں خصو صاً بچو ں کے ساتھ محبت بھر ے ا لفا ظ بو لے جا ئیں۔