محبت کی رسید

شادی کے اکیس برس بعد، ایک دن میری بیوی نے مجھے ایک طرف بلایا۔ وہ پیار سے میری طرف دیکھنے لگی یوں لگا کہ وہ مجھ سے کچھ چاہتی ہے:پھر اْس نے کہاکہ وہ چاہتی ہے کہ میں ایک شام کسی اور عورت کے ساتھ گزاروں۔ اْسے کھانے پر لے جاؤں اور شاید بعد میں کوئی فلم بھی دیکھ لیں۔
اْس نے کہا:میں تم سے محبت کرتی ہوں۔لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے مجھ سے بھی زیادہ۔اس لئے میں چاہتی ہوں کہ تم اْسے اپنے وقت میں سے تھوڑا سا وقت دو۔
وہ دوسری عورت میری ماں تھی۔ وہ انیس سال سے اکیلی رہ رہی تھیں، جب سے میرے والد کا انتقال ہوا تھا۔میرے لاکھ کہنے پر بھی وہ میرے ساتھ میرے گھر میں نہیں رہتی تھیں بس وہ اپنے دن اْس گھر میں گزارنا چاہتیں تھیں جہاں سے انھوں نے میرے ابا کے ساتھ زندگی کا آغاز کیا تھا۔مجھے مجبوراً بہتر مستقبل کیلئے شہر آنا پڑا۔پھر نوکری، روزمرہ کی زندگی اور تین بچوں کی ذمہ داریوں میں ایسا اْلجھا کہ بس کبھی کبھار ہی اْن سے ملنے جاتا تھا۔
اْسی شام میں نے انہیں فون کیا۔ میں نے پوچھا کیا وہ میرے ساتھ کھانا کھانے چلیں گی؟
کیا کوئی خاص بات ہے؟انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
نہیں، کچھ خاص نہیں،میں نے جواب دیا۔ بس میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ کچھ وقت گزاروں۔ دوسری طرف طویل خاموشی چھا گئی۔ پھر اْن کی آواز آئی: مجھے بہت اچھا لگے گا۔اگلے دن میں انہیں لینے گیا۔ مجھے انجانی خوشی ہو رہی تھی؛ کافی عرصے بعد ہم دونوں اکیلے کہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے تیار ہوکر بال سنوارے تھے، وہی لباس پہنا تھا جو انہوں نے ابا
 کے ساتھ اپنی شادی کی آخری سالگرہ پر پہنا تھا۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھیں، ان کی مسکراہٹ ایک ننھی بچی کی سی تھی۔
پھر مجھے کہنے لگیں:میں نے اپنی سہیلیوں کو بتایا کہ آج رات میں اپنے بیٹے کے ساتھ باہر جا رہی ہوں تو وہ سب بہت حیران تھیں۔ 
ہم نے ایک سادہ سا چھوٹا ریستوران چُنا، جس کا ماحول بہت مانوس اور پْر سکون تھا۔ وہ میرے بازو کو ایسے تھامے ہوئے تھیں جیسے کسی بڑی محفل میں آئی ہوں۔
میز پر بیٹھے میں نے مینو اْونچی آواز میں پڑھا: اْن کی نظر اب کمزور ہو گئی تھی اور مینو کارڈ پر چھپے الفاظ واضح نظر نہیں آتے تھے۔
 جب میں نے سر اُٹھایا تو وہ مجھے بڑی محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہیں مینو پڑھ کر سنایا کرتی تھی۔اس پر میں مسکرایا اور بولاتو اب یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں آپ کے لیے پڑھوں۔
ہم نے کھانا کھایا، باتیں کیں، بس ہم تھے، ہماری زندگیاں، ہماری یادیں۔ ہم اتنی دیر باتوں میں لگے رہے کہ فلم کا خیال ہی نہیں رہا۔ مگر اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ شام ویسے ہی مکمل تھی۔جب میں انہیں گھر چھوڑنے گیا تو انہوں نے کہا: میں پھر سے کسی روز تمہارے ساتھ باہر جانا چاہتی ہوں۔ لیکن اگلی بار دعوت میری طرف سے ہوگی۔
میں نے مسکرا کر کہا:  جی ہاں ضرور ہم جائیں گے وعدہ۔
گھر واپس آیا تو بیوی نے پوچھا: کیسا رہا؟میں نے کہا: جتنا سوچا تھا، اْس سے کہیں بہتر۔
مگر دوسری ملاقات کبھی نہ ہو سکی۔ چند دن بعد میری ماں اچانک دل کے دورے سے چل بسیں۔
کچھ ہفتوں بعد مجھے ایک لفافہ ملا۔ اندر ریستوران کی رسید تھی۔ انہوں نے پہلے ہی دو افراد کا بل ادا کر رکھا تھا۔ ساتھ ایک چھوٹی سی پرچی تھی، اْن کی اپنی لکھائی میں:مجھے نہیں معلوم تھا کہ اگلی بار موقع ملے گا یا نہیں، اس لیے پہلے ہی ادا کر دیا۔ یہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے لیے ہے۔ وہ شام میرے لیے بہت قیمتی تھی۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں، میرے بیٹے۔
اْس دن میں نے سچ مچ سمجھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔
کتنا ضروری ہے کہ ہم وقت پر ”میں تم سے محبت کرتا ہوں“ کہہ سکیں، اور اْن کے لیے وقت نکالیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔کیونکہ دنیا کی سب سے قیمتی چیز یہی ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail