زندہ یسوع میرا ہمسفر
ایسٹر کی آدھی رات کی عبادت کے بعد سب مومنین ایک دوسرے کو گلے مل کر یسوع مسیح کے مْردوں میں سے جی اْٹھنے کی مبارک باد پیش کر رہے تھے۔اعجاز اپنے چھوٹے بیٹے کو اْٹھائے ہوئے سبھی کو ایسٹر مل رہا تھاکہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔کال اْٹھاتے ہی وہ بولا نصیر تم کیسے ہو؟ایسٹر مبارک ہو۔آج اچانک میری یاد کیسے آگئی؟
نصیر:بس یار ایسٹر کی عبادت کے بعد چرچ سے باہر نکلتے ہی،جی چاہا کہ تمہیں کال کروں تو بس بات کر لی۔کئی دنوں سے تمہیں یاد کر رہا تھا۔
اعجاز:اچھا کیا فون کر کے،تمہاری کال نے میری خوشی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔یقین جانو تمہاری آواز سْن کر اتنا خوش ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا۔یہ تو بتاؤ کہاں سے فون کر رہے ہو؟
نصیر:یار تمہارے شہر آیا ہوں۔سناؤ پھر کل کیا مصروفیات ہیں؟میں ایک دن تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔
اعجاز:ضرور ضرور میں تمہارا انتظار کروں گا۔میرا خیال ہے کہ ہم سات سال بعد ملیں گے۔(اعجاز اور نصیر دنوں بچپن کے دوست ہیں۔ایک ہی گلی میں رہتے تھے۔کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے اکٹھے سکول جاتے تھے۔ہوم وار بھی اکٹھے کرتے اور مستقبل کے منصوبے بھی ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے۔آج اعجاز ایک بزنس مین اور نصیر انجیئنر ہے۔دل ہی دل میں اعجاز بہت خوش تھا کہ وہ کئی سالوں بعد ایسٹر کے دن اپنے دوست کو ملنے جائے گا۔)
گرجا گھر سے واپسی پر وہ اپنے بچوں کو نصیر کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا تھا۔بچے بھی انکل نصیر سے ملنے کے لئے بے تاب تھے۔اعجاز اور مسز اعجاز دونوں بازار گئے اور کھانے کے لئے وہ سب چیزیں لائے جو نصیر کو پسند تھیں۔اگلے دن کچھ ہی دیر بعد نصیر آگیا۔دونوں دوست ایک دوسر ے کو گلے ملے اور اْنھیں ایسا لگا کہ یہ عید باقی عیدوں سے مختلف عید ہے۔
اعجاز:سناؤ نصیر!زندگی کیسی چل رہی ہے؟
نصیر:شکر ہے خْدا کا اْس سے جو بھی مانگا سب ملا ہے بس بچوں کے مستقبل کا سوچ کر مایوس ہو جاتا ہوں۔
اعجاز:میں تو سوچتا تھا کہ تم امریکہ میں رہتے ہو ایک کامیاب انسان ہو۔تمہیں جو چاہیے تھا تم نے پایا۔اور بچوں کو بھی بہترین تعلیم دلوا رہے ہو۔
نصیر:میرا خواب تھا کہ خوب کما کر اپنے خاندان کو امیر بناؤں۔آج میرے پاس سب ہے بس سکون نہیں ہے۔
اعجاز:یہ دولت اور باقی ساری آسائشیں تھوڑی دیر کے لئے انسان کو خوش رکھتی ہیں مگر اصل سکون خدا کے گھر جانے سے ملتا ہے۔سناؤ تم کبھی خدا سے ملنے اْس کے گھر جاتے ہو یا نہیں؟
نصیر:شروع شروع میں جب ہم امریکہ گئے تو ہمارا گھر چرچ سے بہت دور تھا۔لیکن پھر بھی ہم بلاناغہ چرچ جاتے تھے۔اور اب ناجانے کیا ہو گیا ہے چرچ بھی گھر کے نزدیک ہونے کے باوجود گرجا گھر جانے کا وقت نہیں ملتا۔
اعجاز:یار جس سے پیار ہو،اْس کے لئے وقت خود بخود ہی نکل آتا ہے۔
نصیر:یار بات تو ٹھیک ہے مگر کبھی کبھی تو دْعا کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔لگتا ہے کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔
اعجاز:وہ کیسے؟
نصیر:دیکھو،میں چاہتا تھا کہ میرا بیٹا میری طرح کامیاب انسان بنے۔لیکن اْس نے میٹرک بھی مکمل نہیں کی۔پھر سوچا کچھ ٹیکنیکل کام سیکھا لوں پر اْس میں بھی نہیں چلا۔اور آج کل آواراہ لڑکوں کے ساتھ پھرتا ہے۔
اعجاز:اس پریشانی میں کبھی اس سے مشورہ کر کے تو دیکھو۔جس نے تمہارے اور میرے لئے دْکھ اْٹھائے۔صلیبی اذیت اور موت قبول کی۔اورتیسرے دن مْردوں میں سے زندہ ہو کر ہماری روزمرہ زندگی میں ہمارا ہمسفر بن گیا۔
نصیر:اگر وہ میرا شریک ِسفر ہے تو بچوں کے سلسلے میں میری مدد کیوں نہیں کرتا؟
اعجاز:تم تو بہت ساری دولت جمع کرنے میں دن رات مصروف ہو۔مجھے لگتا ہے کہ تم خود اپنے بچوں کو کامیاب کرنے میں ان کے شریکِ سفر نہیں ہو۔
نصیر:اعجاز!تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔میں جو کچھ بھی کما رہا ہوں یہ سب کچھ اْنہی کے لئے تو ہے۔
اعجاز:نصیر! میری بات کا بْرا نہ مناؤ بلکہ اسے غور سے سنو۔تم جو کچھ کر رہے ہو اور جو دولت کمارہے ہو وہ اپنا نام بنانے کے لئے کر رہے ہو۔تمہیں اتنا کمانے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے اور اس لئے تم اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔میرا خیال ہے تم یہ ذمہ داریاں خدا پر ڈال رہے ہو۔
نصیر:یار تم نے اتنی سمجھ داری والی باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں؟
اعجاز:میں خدا کو آزماتانہیں ہوں بلکہ خدا کی محبت کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔وہ ہر لمحہ میرے ساتھ ہوتا ہے اور زندگی کے مسائل کو سمجھنے میں میرے ذہن کو ایسے کھولتا ہے جیسے اْس نے جی اْٹھنے کے بعد عموآس کے شاگردوں کے ذہن کو کھولا۔
نصیر:یہ تو بہت دلچسپ،ایمان پرور اور یسوع کا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ سفر کرنے کا انوکھا اور منفرد انداز ہے۔
اعجاز:خدا کے پیار کا سلسلہ صرف شاگردوں تک محدود نہیں رہا بلکہ آج ہماری زندگیوں میں بھی جاری ہے۔میں خاندانی مسائل کو سمجھنے کیلئے اْس سے التجا کرتا ہوں۔اور وہ ہمیشہ میری رہنمائی کرتا ہو۔جب کبھی کوئی مجھے بْرا لگتا ہے تب بھی میں خدا سے مدد لیتا ہوں۔
نصیر:انسان ہوتے ہوئے یہ سب کرنا مشکل ہے۔
اعجاز:انسان اشرف المخلوقات ہے۔یسوع نے نیقودیمس سے یہی بات کہی تھی کی تجھے ازسر نو پیدا ہونا ضرور ہے۔از سر نو پیدا ہونا یہی ہے کہ ہم معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق نہیں بلکہ یسوع کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق زندگی گزاریں۔
نصیر:میں نے تو یسوع کو اپنی عملی زندگی میں کام کرتے ہوئے کبھی محسوس نہیں کیا۔آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ یسوع کو اپنی زندگی میں ہمسفر بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
اعجاز:میرا خیال ہے کھانا بن گیا ہے۔آؤ کھانا کھاتے ہیں۔
نصیر:آج کے کھانے کا تو مزہ ہی کچھ اور ہوگا۔
مسز اعجاز:نصیر بھائی!آج ہم نے آپ کے لئے وہی بس بنایا ہے جو آپ کو بچپن میں بہت پسند تھا۔
نصیر:بھابھی میں دونوں کی زندگی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔آپ دونوں بہت خوشگوار اور سکون بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس گھر کو آباد کرتے وقت آپ دونوں نے یسوع کو اپنا دائمی ہمسفر بنایا ہے۔
مسز اعجاز:ہاں یہ بات بلکہ ٹھیک کہی آپ نے،یسوع ہمارا شریکِ زندگی ہے اس لئے ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔
نصیر:یسوع کی رہنمائی میں گزرنے والی آپ کی مثالی زندگی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔آج کی عید اور آپ سے ملاقات نے تو میری زندگی میں نئی خوشیاں بکھیر دی ہیں۔مجھے محسوس ہورہا ہے کہ جیسے زندہ یسوع نے مجھے مایوسیوں اورپریشانیوں کی قبر سے باہر نکال دیا ہے اور وہ واقعی میرا بھی ہمسفر ہے۔
آئیں آج سے ہم بھی یسوع کو اپنا ہمسفر بنائیں۔اپنے سارے معاملات اْس کے سپرد کریں۔زندگی آسان اور خوشیوں بھری ہو جائے گی پھر کوئی غم،کوئی دْکھ نہیں رہے گا۔