زندگی اِک سہانا سفر
زندگی ایک ایسا سفر ہے جو مسلسل جاری و ساری ہے کبھی کوئی سایہ دار درخت یا آرادم دہ جگہ مل جائے تو سکون و چین اپنا دامن پھیلادیتے ہیں تو وہیں کبھی موسم کی سختی اور راہ کی دشواری چین چھیننے کی وجہ بن جاتی ہے لیکن منزل انہیں کے قدم چومتی ہے جو صرف تقدیر پر تکیہ لگانے کے بجائے تدبیر کا بھی سہارا لیتے ہیں۔
منزل کی جستجو ہے میں کیوں پھر رہا ہے راہی
اتنا عظیم ہو جا کہ منزل تجھے پکارے
یہ سفر ہر ایک کیلئے ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا سفر مختلف ہوتا ہے کسی کو گھر سے نکلتے ہی منزل مل جاتی ہے کوئی عمر بھر سفر میں رہا۔ایک عقلمند انسان اپنی تکالیف میں بھی خوشیوں کی وجہ ڈھونڈ لیتا ہے حالات کے موافق تدابیر اختیار کرکے زمانے کا رْخ موڑ دیتا ہے وہ کبھی شکست تسلیم نہیں کرتا۔حالات کے آگے نہیں جھکتا۔ لوگ اس کے سامنے اس کے زخموں کو دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں لیکن وہ برابر یہ کہتا ہے۔
دھوپ کی سختی تو تھی لیکن فرازؔ
زندگی میں پھر بھی تھا سایہ بہت
سفر میں تھک کر بیٹھ جانا، شکست تسلیم کرلینا، حالات کے آگے جھک جانا، آنسو بہانا، غموں پر واویلہ مچانا،خود بھی پریشان ہونا اوروں کو بھی مبتلائے عذاب کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں بلکہ بہادر اور دلیر انسان نہ تو راستے کی ناہمواری کا گلہ کرتا اور نہ ہی صعوبتوں کی پرواہ کرتا ہے۔اس کی نگاہ نہ منزل پر ہوتی ہے کیونکہ سربلندی سخت جان مسافروں کے قدم چومنے سے پہلے انہیں خوب آزماتی ہے کبھی منزل کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہوتا اور بعض مرتبہ سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں جب ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ ہمارا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
سفر میں سمت کا تعیّن اور ہر موڑ پر صحیح فیصلہ انسان کو کامیابی کے قریب کرتا ہے یہاں محض جذبات اور ارادوں سے کام نہیں چلتا بلکہ تجربات کی روشنی میں اٹھایا گیا قدم اور دانشمندی مفید ہوتی ہے ایک غلط فیصلہ آپ کو منزل سے کوسوں دور کردیتا ہے اور کامیابی ایک خواب بن جاتی ہے۔اس لئے شاعر نے کہا:
صرف اک قدم اْٹھا تھا غلط راہ ِشوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی
خود اعتمادی اور مثبت سوچ و فکر سفرِ زندگی کا اسلحہ ہے خوف اور ناامیدی ایک مسافر کے لئے قاتل ہے کیفیات کی تبدیلی کے سبب کبھی سفر آسان لگتا ہے تو کبھی مشکل۔زندگی کا فلسفہ سمجھئے خوشی و غم عروج و زوال وسعت و تنگی زندگی کا حصہ ہے جو زندگی کے فلسفے کو نہیں سمجھتا وہ کامیاب نہیں ہوپاتا۔
مسکرانا سیکھئیے یہ فضائیں ہمیں زندگی کا پیغام سنانا چاہتی ہیں۔ یہ مہکتے گلاب ہمیں تازگی کا سبق دیتے ہیں۔چہچہاتے پرندے لبوں کو جنبش دینا سکھاتے ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ پیش قدمی کی دعوت دیتے ہیں۔ جنگل کے درندے رفتار و قوت کی اہمیت کا اندازہ دلاتے ہیں پھر کیوں افسردہ ہونا؟ جمود و سکوت کا نام موت ہے زندگی نہیں اور ہم تو زندہ ہیں مُردہ نہیں۔اس لئے ز ندگی جو ایک سہانا سفر ہے اس سے لطف اندوز ہوں۔