داستانِ وفا
یہ سن1995 کی بات ہے جب مہر النسانے اعلیٰ نمبروں کے ساتھ اپنی ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔روایتی والدین کی طرح مہر النسا کے ماں باپ نے بھی اس کے رشتے کی تلاش شروع کردی۔ مہرکیلئے جو پہلا رشتہ آیا، وہ دانیال صاحب کا تھا۔ جسے اْس کے گھر والوں نے فوراً ہی قبول کر لیا کیونکہ منع کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتاتھا۔لمبا قد، گورا رنگ، خوش اخلاقی، فرمانبرداری تو اْن کی شخصی خوبیاں ٹھہری۔پیشے کے اعتبار سے اعلیٰ ادارے میں اعلیٰ سرکاری ملازمت اور میڈیکل کی بھی ڈگری رکھتے تھے۔ یوں ہاں ہوتے ہی چٹ منگنی، پٹ بیاہ ہو گیا۔
مہرالنسا بھی کسی طوردانیال صاحب سے کم نہ تھی۔ گوری رنگت کے ساتھ لمبا قد،صرف پڑھائی میں ہی آگے نہیں بلکہ گھر کے سلیقے اور کھانا پکانے میں بھی ماہرتھی۔یوں چند ماہ میں ہی دْعاؤں کی چادر اوڑھے مہرالنسا بیاہ کردانیال صاحب کے گھرانے کا حصہ بن گئی۔
خْداکے فضل سے شادی کے پہلے ہی سال بیٹے کی ولادت ہوئی۔ جس کا نام گْل زیب رکھا۔ گھر میں ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی تھی۔ دانیال صاحب کی ڈیوٹی خاصی سخت ہوتی، پہلے دفتر اور پھر شام میں اپنی پرائیوٹ کلینک کو وقت دے کر جب وہ گھر پہنچتے تو گْل زیب سو رہا ہوتا۔ مہر بیگم کے بنائے مزیدار کھانے کھاتے ہوئے خوش گپیاں بھی ہوتیں، دن بھر کی مصروفیات اور کچھ مستقبل کے خوابوں کا ذکر بھی تفصیلاً ہوتا۔
دانیال صاحب کے کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ انہیں اکثر دوسرے شہروں کیا، بیرون ملک کا سفر بھی کرنا ہوتا۔ اْن کی غیر موجودگی میں مہر بیگم نہ صرف گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتی بلکہ باہر کے تمام کاموں کا بیڑہ بھی خوش اسلوبی سے اْٹھاتیں۔
یوں زندگی خوشگوار چلتی رہیں اور پھر چند سالوں بعدخْدا نے بیٹی کی صورت میں رحمت عطا فرمائی۔ رحمت تو گھر میں آئی مگر ساتھ ہی ایک ایسی آزمائش کا آغاز ہواہے جو سوچا بھی نہیں تھا۔ مہر بیگم ایک ایسی بیماری کا شکار ہو ئی جس کو سمجھنے سے ڈاکٹرز بھی قاصر تھے۔
بیوی کی بیماری کی وجہ سے دانیال صاحب کی ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو ا۔ دفتر، کلینک اور پھر گھر آ کر مہر بیگم کو دیکھنا۔اب گھر کے کام کاج اوربچوں کی دیکھ بھال کے لئے دانیال صاحب نے خادمہ کا بندوبست کر دیا ہوا تھا مگر مہربیگم کھانا خود ہی پکاتی کیونکہ اْن کے شوہر کو کسی اور کے ہاتھ کا کھانا نہ بھاتا تھا۔دانیال صاحب نے مہر بیگم کے علاج میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ دور دراز علاقوں کے ڈاکٹروں یا حکیموں کے پاس بھی جانا ہوتا تو دانیال صاحب لے کر جاتے۔ مہنگی ادویات، اعلیٰ ڈاکٹروں، مشہور حکیوں کے نسخوں اور پیرومرشد کے تعویزوں سے ذرا فرق نہ پڑتا۔ یوں دن بدن مہر بیگم کی صحت مزید بگڑتی جا رہی تھی۔ خوراک کم اور ادویات کا استعمال انہیں جیسے اندر سے کھوکھلا بنا رہا تھا۔
دوست، احباب، رشتہ دار سب ہی دانیال صاحب کو مشورہ دیتے کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں آپ دوسری شادی کر لیں۔ آپ کی دوسری بیگم بچوں کا خیال رکھے گی اور مہربیگم کی خدمت بھی کرے گی۔ لیکن دانیال صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا جو آج کے دور میں شاید ہی سننے کو ملے۔ مہر بیگم پہلے سے تو بیمار نہیں تھی، میں بیاہ کر لایا ہوں تو اب یہ میری ذمہ داری ہیں۔ اگر رب نے ہم دونوں کو آزمائش کے لئے چْنا ہے تو میں انہیں اکیلا کیوں چھوڑوں۔ اپنے شوہر کہ یہ دو جملے جیسے مہر بیگم کے لئے طاقت و تواناء کا مربہ ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو پھر سے صحت مند محسوس کرنے لگتیں۔ڈاکٹروں کے غیر تسلی بخش جوابات مہربیگم اوراْن کے شوہر کی ہمت توڑ دیتے مگر وہ اپنے خْدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو ئے۔
مہر بیگم کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا، ان کے کپڑے خریدنا، ان کے بال بنانا، ان کو تیار کرنا دانیال صاحب کے مشاغل ہوتے۔ مہر بیگم کی کمر جھک گئی، ہاتھوں، پیروں کی طاقت کھو چکی تھی، بات کرنے کا انداز تبدیل ہو گیا مگر جو نہیں بدلا وہ مہر بیگم کی خوش مزاجی تھی۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دانیال صاحب، مہر بیگم کو کہیں بھی ساتھ لے جانے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے، چاہے پھر وہ دعوت ہو یا شادی کی تقریب۔سال گزرتے گئے اور ان کی بیٹی کی شادی کا وقت آگیا۔ جس کی ساری تیاری دانیال صاحب نے کی اور دونوں نے نہایت خوشی سے
بیٹی کو رخصت کیا۔تقریبا27 سال کا ایک طویل عرصہ مہر بیگم نے صرف دانیال صاحب کے مثبت رویے، ہمدردانہ خدمت، محبت بھرے جملوں اور تسلی بخش انداز، پْر اْمید باتوں کے سہارے گزار دیا۔ کبھی کبھار مہر اپنے شوہر کی بے انتہا محبت، پرخلوص رویے اور وفا پر حیران بھی ہوتی مگر پھر سوچتی کہ شاید یہ میری کسی نیکی کا اجر ہواور یا خْدا کی کوئی خاص کرم نوازی ہے۔
اب دانیال صاحب ریٹائیر ہونے کے بعد مہر بیگم کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ اب تو وہ بہت زبردست کھانا پکانا بھی سیکھ چکے تھے۔ روز مرہ کھانوں کے علاوہ گھر پر ہونے والی دعوتوں کا اہتمام بھی اکیلے سر انجام دیتے۔ مہربیگم انہیں گائیڈ کرتیں اور وہ مزیدار کھانے پکا لیتے۔ مہر بیگم کی دلجوئی کی خاطر 10-7 بجے والے ڈرامے ان کے معمول کا حصہ بن چکے تھے۔ باہر کی مصروفیات بہت مختصرتھی کیونکہ وہ اپنی بیگم کو بیماری کی حالت میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔
آج بھی دانیال صاحب اور مہر بیگم کسی معجزے کے انتظار میں ہیں کہ شاید کسی کی دْعا کا اثر ہو اور مہر بیگم صحت یابی کی سیڑھی دھیمے ہی سہی چڑھنا شروع تو کریں۔
مشہور کہاوت ہے کہ بیوی کی وفا پرکھنی ہو توشوہر کی تنگدستی میں پرکھو اور شوہرکی وفا کا معیار ماپنا ہو تو بیوی کی بیماری میں مانپو۔ اور اس کہانی میں دانیال صاحب وفا کے معیار پر٪100 پورے اْترے ہیں۔
کیا آپ نے دور حاضر ہ میں ایسی وفا اور خلوص کی داستان سنی یا پڑھی ہے؟