خودکشی کی جانب بڑھتا ہوا رحجان
یہ زندگی خدا کا ایک ایسا عظیم ترین تحفہ ہے جس کا شکر ہم جتنی باگزارنا ہمارا فرض ہے۔ خدا اپنے بندوں سے بہت پیارکرتاہے اسی لیے انکو اتنی ہی آزمائشوں سے گزارتا ہے جتنی وہ برداشت کر لے۔ آزمائشوں کا سلسلہ آدم کے ر کریں کم ہوگا۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا پھر اس دنیا میں لایا۔ ہر انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ کسی کو کم دولت دی تو کسی کو زیادہ، کسی کو زیادہ خوبصورتی بجشی توکسی کو کم،کسی میں کوئی خوبی رکھی تو کسی میں کوئی اور،اب اس زندگی کی حفاظت کرنا اسکو صحیح طریقے سے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ان کو باغِ عدن تو ملالیکن وہ بھی انکے لیے ایک آزمائش تھی۔ جس طرح حضرت آدم اور اماں حوّا کو باغِ عدن کے ذریعے آزمایا گیا اسی طرح ہر ایک پیغمبر کو آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ اور انہی آزمائشوں پر صبر کرکے وہ خداکے محبوب بندے بنے۔ غرض ہر انسان کی زندگی میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ زندگی چھوڑ کر موت کو گلے لگائیں بلکہ اس لیے تاکہ ان کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو اور وہ خدا کے محبوب بندے بن جائیں۔ جو لوگ ان آزمائشوں میں صبر کرتے ہیں وہی لوگ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ بے صبری اور ناشکری کرتے ہیں وہ دونوں جہانوں میں ناکام رہتے ہیں۔مشکلات، پریشانیاں، دکھ اور درد یہ سب زندگی کا ایک حصہ ہیں نہ کہ پوری زندگی۔ یہ سب چیزیں صرف وقتی ہیں ابدی نہیں۔ آج اگر مشکل ہے تو کل آسانی بھی ہوگی۔ جس طرح ہر رات کے بعد دن ہوتا ہے اسی طرح مشکلات کے بعد آسانی ہوگی۔کیونکہ خدا بندے کو سب کچھ اسکی وسعت کے مطابق دیتا ہے چاہے وہ خوشی ہو یا غم۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ جس طرح آسمان میں ہمیشہ بادل نہیں رہتے اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مشکلات نہیں رہتی۔ جس طرح ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے سے ملتا ہے اسی طرح ہمارے ذہنوں
میں پیدا شد ہ سوالوں کے جواب ہمیں تلاش کرنے چاہیے۔ اگر ہمیں کسی سوال کا جواب نہ ملے اسکا مطلب یہ نہیں کہ سوال کو ہی مٹا دیا جائے۔ سوال کو مٹانا سوال کا حل نہیں بلکہ اس کا جواب تلاش کرنا ہی اسکا حل ہے۔ اِسی طرح زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا حل تلاش کرنا چاہیے نا کہ خودکشی کر کے زندگی کو ہی ختم کرنا چاہیے خودکشی کرنا ہمارے مسائل کا ہرگز حل نہیں۔ اگر ہم نظر ڈورائیں تو معلوم ہو گا کہ آج کل کے دور میں ہر کوئی اپنے مستقبل کو لے کر فکر مند ہے۔ خاص کر ہمارے نوجوان،جو اپنے مستقبل کو لے کر اتنے فکر مند ہیں کہ اب وہ ذہنی مریض بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے؟مستقبل کا مالک کون ہے؟تو جو چیز ہمارے بس میں نہیں اسکے بارے میں پریشان ہونے سے کیا ملے گا؟ ہمارے مستقبل میں جو کچھ بھی ہے نہ ہم اسکو وقت سے پہلے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو بدلنے کی طاقت ہم میں ہے۔ہاں لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ کوشش اور محنت چھوڑ دیں۔ بس انسان کو کوشش کرنی ہے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے۔ کتنے ہی لوگوں نے صرف مستقبل کے بارے میں پریشان ہو کر موت کو گلے لگا لیا تو کیا ایسا کرنے سے مستقبل سنور گیا؟ نہیں بلکہ اس سے وہ ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں چلے گئے۔ ہو سکتا ہے تھوڑی مشکل برداشت کرنے کے بعد انکے مستقبل میں کچھ ایسا ہوتا جس سے انکی پوری زندگی سنور جاتی۔لیکن وہ ہمت ہار گئے۔ اگر ہم یہ سوچ کر محنت کریں کہ خدا ہمیں محنت کا صلہ ضرور دے گا تو یقینا ہم کبھی زندگی سے ناامید نہیں ہونگے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ زندگی خداکی امانت ہے اور اس پر صرف اسی کا حق ہے۔ آج کل خودکشی ایک کھیل سا بن گیا ہے ہر کوئی مرنا چاہتا ہے لیکن موت کے بعد اسکے ساتھ کیا ہوگا اس بات سے ہر کوئی انجان ہے۔ جو انسان اس دنیا کی ذرہ سی تکلیف برداشت نہیں کر سکا وہ آخر ت کی سزا کو کیسے برداشت کر سکے گا۔
ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ خدانے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،ہمیں دماغ دیا،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اس لئے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر ہمارا کوئی بھائی کسی پریشانی میں مبتلا ہے تو اس کی مدد کرنی چاہیے ناں کہ اسکی پریشانی کی وجہ بنیں۔ آج انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے اگر کسی انسان کی وجہ سے کوئی انسان اپنی زندگی ختم کرتاہے تو دوسرا بھی اسکے گناہ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری وجہ سے دوسروں کی زندگی سنور جائے ناکہ ہم انکی موت کی وجہ بن جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت لازمی کریں تاکہ انکا ایمان مضبوط ہو اور انکو خودکشی جیسے سنگین گناہ کا سہارا نہ لینا پڑے۔
خداہم سب کی مشکلیں آسان فرمائے اور زندگی میں کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ آمین