خاندانی زندگی کو بہتر کیسے بنایا جائے؟
صدیوں سے ہی انسان شادی کے بندھن میں بند کرنے خاندان بناتا چلا ا ٓرہا ہے اور اس پر عمل کر کے وہ خدا کے اس حکم کی تعمیل کر رہا ہے کہ”تم پھلو بڑھو اور زمین کو مامعمور و محکوم کرو“۔ انسانوں کی شادی سے متعلق حکم ہر مذہب میں دیا گیا ہے اور انسان اس پر خوشی سے کاربند ہے۔ شادی کے بعد انسان کی عملی زندگی شروع ہوتی ہے۔ جس میں اس کو احساسِ ذمہ داری، خاندان کی کفالت، بچوں کی پرورش نیزاِن کو پروان چڑھانے کے لیے تگ و دو شروع ہو جاتی ہے۔ خاندان میں دونوں سربرا ہوں (شوہر،بیوی) کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ ہم صدیوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ خاندانی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سے نشیب و فراز میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ شب و روز محنت کرنی پڑتی ہے۔ شادی شدہ مرد کو اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے کے لیے اپنی بیوی اس کے اس کے میکے اور اپنے خاندان میں توازن رکھنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ تب جا کر وہ متوازن زندگی گزار سکتا ہے۔لیکن اگر ان تمام رشتوں میں وہ توازن نہ رکھ سکے تو سمجھیں اسے ایک ناکام شادی شدہ مردسمجھا جائے گا۔ بالکل اسی طرح ایک شادی شدہ عورت کے لیے ہے کہ اسے اپنے شوہر، اس کے خاندان اور اپنے میکے والوں کواچھی بیٹی، اچھی بہو، اچھی بیوی اور اچھی ماں ثابت کرنے کیلئے ساری زندگی مسلسل جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ میڈل کلاس طبقے کی خاندانی زندگی میں مسائل کی بڑی وجہ کم آمدنی کا ہوتا ہے کیونکہ کم آمدنی کی وجہ سے وہ تمام آسائشیں جو اُس کا خاندان اُس سے توقع کر رہا ہوتا ہے نہیں ملتیں،تب اُس کی زندگی میں مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عام مشاہدے کے مطابق انسان لا تعداد خواہشوں کا متمنی ہوتا ہے اور ایک تو خواہش کے پورے ہونے پر وہ دوسری خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح اُس کی زندگی میں خواہشیں پوری کرنے کا لامتناہی سلسلہ ختم کے ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جبکہ وہ انسان اپنی طبعی عمر پوری ہونے کے بعد خود ختم ہو جاتا ہے۔ اس بات کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان یا خاندان بہتر زندگی کی خواہش نہ رکھے۔ ایسا بالکل نہیں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خاندان کو بہتر سے بہتر زندگی دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ مگر وہ خواہشیں ایسی ہوں کہ جن کو پورا کرنااُس کے لئے ممکن ہو اور جس کے لئے اُسے کسی دوسرے کا گلہ نہ کاٹنا پڑے، کسی دوسرے کا استحصال نہ کرنا پڑے، کسی کا حق نہ مارنا پڑے اور کوئی ایسی خلاف ورزی نہ کرنی پڑے جو قانون کے خلاف ہو۔
ہمارے ملک میں دو طرح کے خاندانی نظام موجود ہیں مشترکہ خاندانی نظام اور علیحدہ سے رہنے کا نظام۔ ہمارے ہاں اکثریت مشتر کہ خاندانی نظام میں رہنا پسند کرتی ہے اور اس کے لئے بہت سی دلیلیں اور مثالیں دی جاتی ہیں۔ صدیوں سے مشترکہ خاندان میں رہنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اُن کے بچے انہیں چھوڑ کر علیحدہ رہیں۔ وہاں رہ کر بھلے ان خاندانوں میں ساس بہو کے جھگڑے، نند بھا بھی کے جھگڑے، بھائیوں کے جھگڑے ہوتے رہیں اس کے باوجود پورا خاندان مشترکہ طور پر رہنے کے پابندہوتے ہیں۔لیکن اگر کوئی الگ ہو جائے تو اْس کو نافرمان کہا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ اُس کا سارا الزام اُس کی بیوی کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ پورا خاندان اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور اُسے سماجی رابطہ منقطع کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔پھر کہا جاتا ہے کہ مشتر کہ خاندان ہی بہتری کا ضامن ہے علیحدہ رہنے کا تصور مغربی سوچ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ نظام کے ذریعے خاندانی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے یا علیحدہ خاندانی نظام کے ذریعے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ایسا کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے جسے آپ ہر خاندان پر اپلائی کر سکیں۔ بہت سے خاندانوں میں مشترکہ نظام چلتا آرہا ہے وہاں سبھی گھر والوں کے رویے مثبت ہیں، ہر ایک کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، خاندان کی بہوؤں کو بیٹوں کی طرح سمجھا جاتا ہے۔گھر کے بلوں کے کم یا زیادہ دینے پر بھائی ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوجاتے۔ میاں بیوی کے ساتھ دونوں خاندانوں میں ہم آہنگی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور اُن کے درمیان کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جو خاندان علیحدہ رہتے ہیں اگر اُن دونوں (میاں، بیوی) کے درمیان ہم آہنگی ہے تو اُن کے درمیان کبھی مسائل نہیں ہوں گے ورنہ وہ علیحدہ ہو کر اور زیادہ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں اور چونکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرتے ہیں اور خاندان کا کوئی بزرگ اُن کے فیصلوں میں شامل نہیں ہوتا تو وہ ان خاندانوں میں کشیدگی کا اُبھرنا لازمی امر ہے جو اکثر واقعات میں طلاق پر ختم ہوتا ہے۔ اِس لئے آپ بھلےمشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوں یا علیحدہ خاندانی نظام میں، آپ ایک مثبت سوچ کو پروان چڑھائیں، اپنی شریکِ حیات کو خاندان کے فیصلوں میں شریک کریں۔ اپنے خاندان میں اُسے اہمیت دلوائیں۔ا سے یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ اُس خاندان کے لئے اجنبی ہے۔ اسی طرح ایک شادی شدہ عورت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے خاندان میں عزت دلوائے۔
آپ اپنے بچوں کی شادی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ بچوں کی شادی محض شادی نہیں بلکہ دو خاندانوں کا میل ہوتا ہے اور اس جڑت کو قائم رکھنے کے لء من دونوں (میاں، بیوی) کا کردار بہت اہم ہوتا۔ بہت سے خاندانوں میں داماد کو جو عزت دی جاتی ہے اُس سے زیادہ کے حق دار ہوتے ہیں اور اسی لئے وہ اپنے سسرال میں خوشی،غمی کے موقع پر ایسا ڈرامہ ر چاتے ہیں جس سے سرال والے پریشان ہو جاتے ہیں کہ اسے ہینڈل کیسے کریں؟ بالکل اسی طرح بہوؤں کو بھی یہی شکوہ رہتا ہے کہ اُنہیں وہ احترام نہیں مل رہا جس کی وہ حقدار ہیں۔ بہو اُس خاندان کو اپنے اُصولوں کے مطابق چلانا چاہتی ہے جبکہ خاندان چاہتا ہے کہ بہو اس خاندان کے اُصولوں کے مطابق زندگی گزارے اور یہاں سے ہی خاندان اور بہو کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے جو اُس بہو کی علیحدگی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں تو اِن رشتوں کی سوچ میں اور بھی تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں بیٹیوں کو شادی کے وقت سمجھایا جاتا تھا کہ اب سے وہ آپ کا گھر ہوگا۔ آپ کے ساس سسر آپ کے والدین ہوں گے اور کو آپ نے مرتے دم تک اُن کی اور اُس گھر کی وفاداررہنا ہے۔ لیکن آج کے دور میں بیٹی کو سمجھایا جاتا ہے کہ اگر تجھے وہاں کوئی بات کرے تو ہمیں بتانا پھر ہم دیکھے لیں گے۔ اس لئے آج کے دور میں ماضی کی نسبت کی طلاق کی شرح زیادہ ہو گئی ہے۔ خاندانوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ لوگ اپنے نجی مسئلوں کو بزرگوں کی مشاورت کے بغیر حل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ خاندان خواہشوں کے لامتناہی چکر میں اچھے اور بُرے کی تمیز بھول چکے ہیں اور اس ضمن میں اپنے مشترکہ خاندانوں کی روایات، اُصول اور اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اگر آپ خاندانی زندگی کو بہتربنانے کے لئے چاہتے ہیں نہ صرف میاں، بیوی بلکہ خاندان کے تمام افراداپنے رویوں کو مثبت بنائیں۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور خاندان کے فیصلے باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں۔ اپنے خاندان کی روایات اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ایسی کوئی غلطی نہ کریں جس کی وجہ سے آپ کے خاندان کی نیک نامی پر حرف آئے۔ خصوصاًآج کے دور میں جب موجود لوگ سوشل میڈیا کے چنگل میں برّی طرح پھنس چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی خاندانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں اور کیسے اپنے خاندانوں کے لیے مثال قائم کر سکتے ہیں؟