بچوں کو ڈیپریشن سے نمٹنا سکھائیں


بچپن کے دن خوشیوں سے بھرپور اور فکروں سے آزاد ہوتے ہیں۔بچے دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد ننھی منی خوشیوں سے بھرپور اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں بعض ایسے بچے بھی ہوتے ہیں،جو عام بچوں سے الگ تھلگ،افسردہ اور زندگی سے بیزار نظر آتے ہیں۔نفسیاتی اصطلاح میں ایسے بچے،”افسردہ یا ڈپریسڈ بچے“ کہلاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ماہرین طب نے یہ بات تسلیم کی کہ بچے بھی بڑوں کی مانند افسردگی یا ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔اس ڈپریشن کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بچے سگریٹ نوشی اور منشیات کے ساتھ دیگر منفی عادات اختیار کر سکتے ہیں۔اگر کوئی بچہ غیر شعوری طور پر ایسی حرکات میں مبتلا ہو گیا ہے تو یہ صرف ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔اس بات کا اظہار معروف تھراپسٹ مارگری لیب نے کیا جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔اکثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ذہنی دباؤ کے سبب بچے قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔یہ دباؤ ان کی کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔والدین کے کام کا دباؤ ان کی ذہنی پریشانی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات بچوں پر بھی پڑتے ہیں۔ماہر نفسیات کلورا نتھونی کا خیال ہے کہ بچپن میں ہونے والا ڈپریشن بچے کے بڑے ہونے پر بہت ہی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ماہرین نے ڈپریشن کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں۔
ڈپریشن کے مریض والدین بعض اوقات گھر میں پیار و محبت سے عاری ماحول پیدا کرکے بچے کو سخت دباؤ میں رکھتے ہیں جس کے باعث بچہ خود کو تنہا محسوس کرکے افسردہ رہنے لگتا ہے۔طبی طور پر والدین سے وراثت میں ملنے والے،ڈپریشن جین بھی بچوں میں ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں۔غیر محفوظ اور غیر مستحکم زندگی بسر کرنے والے بچے بھی ڈپریشن میں جا سکتے ہیں۔ڈپریسڈ بچے،عام نارمل بچوں سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیں،ڈپریسڈ بچے احساسِ کمتری کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں اس لئے وہ اپنی ذات کے متعلق منفی نظریات رکھتے ہیں۔
بچوں کے ڈپریشن کا تھوڑا بہت تعلق بعض اوقات ماؤں سے بھی ہوتا ہے۔ماؤں کا بچوں کو ہر وقت اپنے ساتھ چپکائے رکھنا،ان کو مناسب آزادی نہ دینا اور ان کی حد سے زیادہ حفاظت (Care)بچے کو پُراعتماد بننے نہیں دیتی اور ایسے میں بچہ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یاد رہے کہ ماں اگر بچے کی حد سے زیادہ حفاظت کرتی ہے یعنی Over Protective ہے تو بچہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ کسی طور نہیں چل سکے گا۔ اس کی نشوونما متاثر ہو گی۔اس کے سیکھنے کے امکانات کم ہوں گے۔اسے زندگی کے حقائق کا سامنا کرنے کا کم موقع ملے گا کیونکہ وہ تو ہر وقت ماں سے چپکا ہوا ہے چنانچہ اس میں اعتماد کم اور ڈپریشن بڑھے گا۔ظاہر ہے کہ عملی زندگی میں ماں نے ہر قدم پر بچے کے ساتھ تو نہیں رہنا۔بچے کو تو چھوٹی عمر ہی میں اسکول جانے کے لئے ماں سے جدا ہونا پڑتا ہے،لہٰذا ایسے بچے تعلیم بھی اچھی طرح حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ اسکول ان کے لئے ایک غیر محفوظ جگہ ہوتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو پُرسکون اور ہمدردانہ ماحول فراہم کریں تاکہ اچھا ماحول ان پر مثبت اثرات مرتب کرے۔اپنے مسائل میں اُلجھ کر رہنے کے بجائے اپنے بچوں کو وقت دیں اور ان کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں۔کبھی بھی بچوں کے سامنے اپنی پریشانیاں بیان کرنے کی کوشش مت کریں اس طرح بچوں کو مختلف پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔اگر بچہ کسی بات کو بار بار دہرائے تو سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا کہنا چاہتاہے۔جس طرح بچے کو وقت نہ دینا خطرناک ہے اسی طرح بچے کو ہر وقت پہلو سے لگائے رکھنا بھی بچے کے لئے خطرناک ہو سکتاہے۔لہٰذا والدین خصوصاً ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایک حد تک آزادی بھی دیں۔ بچے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیں۔والدین اگر بچوں کو نجی اور خاندانی تقریبات میں لے جائیں تو اس سے بھی کافی حد تک بچے ڈپریشن سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔بعض اوقات یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بچوں کے معاملے میں کسی ماہر کا مشورہ لیا جائے،والدین کو بعض اوقات بچوں کے مسائل سمجھ نہیں آتے۔جہاں خاندانی نظام قائم ہے تو وہاں خاندان کے بڑے بوڑھے اپنے تجربات کی روشنی میں ایسے والدین کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔لیکن جہاں خاندانی نظام میں دراڑیں پڑ رہی ہیں وہاں والدین کو ضروری رہنمائی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔والدین کو اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ بچوں کا آج کا مسئلہ کیا ہے۔خواہ وہ عمر کے کسی بھی دور میں ہوں یہاں تک کہ کالج ہی کیوں نہ جاتے ہوں۔اپنے بچوں کی ہمت افزائی کیجیے۔ان کا حوصلہ بڑھائیے،وہ آپ کا ساتھ چاہتے ہیں۔آپ خود تو ماضی میں نہیں لے جا سکتے ہیں لیکن اپنے مستقبل کو ضرور محفوظ کر سکتے ہیں۔آج کا دور تیز ترین ہے،جہاں بہت ساری دریافتوں نے زندگی کو آسان کردیا ہے۔وہیں زندگی میں شدید ترین تناؤ،مایوسی،دباؤ اور تصادم جیسی کیفیات کو بھی اُبھارا ہے جس سے ہم سب کی زندگیوں میں کبھی زیادہ،کبھی کم،مگر کچھ تلخی سی رہتی ہے۔اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات ہمارے نابالغ بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے بچوں کو تناؤ،دباؤ،مایوسی اور تصادم سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کیا جائے تاکہ وہ محض کسی ایک یا چند ناخوشگوار تجربوں کو زندگی کا حاصل سمجھ کر اپنے مستقبل کو نقصان نہ پہنچا دیں۔اپنے بچوں کی مدد کرنا چاہیں گے تو اس کے لئے سب سے اہم تو یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں سے بات چیت کے لئے وقت نکالیں۔اگر آپ ان سے بالکل بات نہیں کرتے یا بہت کم بات چیت کرتے ہیں تو یقینا آپ چاہتے ہوئے بھی ان کی مدد نہیں کر پائیں گے۔اس لئے ہفتے بھر میں کچھ نہ کچھ وقت اپنے بچے سے بات چیت کرنے کے لئے ضرور مخصوص کریں،جس میں آپ اس کو اپنے سامنے بیٹھا کر اطمینان سے مکمل طور پر اس سے ہر طرح کی بات کر سکیں۔اس سے پوچھ سکیں اور اس کی سن سکیں۔اس بات چیت کے عمل کو اپنے روزمرہ معمولات میں بھی شامل کر لیں تاکہ آپ کا بچہ بھی اپنی کوئی اہم بات آپ سے شیئر کرنے کے لئے کسی خاص وقت کا انتظار نہ کرے۔ایسے ماحول میں بچہ اپنی پریشانیوں اور مسائل بروقت والدین کو بتا کر خود کو تناؤ سے محفوظ رکھ سکے گا۔تناؤ سے نمٹنے کے لئے ”ذاتی ڈائری“ بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔اپنے بچوں میں روزانہ ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیے تاکہ وہ اپنے دن بھر کی تمام کارروائی کو قلم بند کرکے اپنے تناؤ کو بعض اوقات خاموشی سے بھی ختم کر سکیں۔تناؤ کی کیفیت کے دوران قہقہے لگانا اور خوش گپیاں کرنا بھی ایک اچھی مشق ہو سکتا ہے۔اس عمل کے لئے گھر میں طنز و مزاح سے بھرپور بہترین کتابوں کی موجودگی کو ممکن بنائیں۔کتاب کسی بھی فرد کی بہترین ساتھی ہے۔
اپنے بچوں میں اعتماد کو بھی پروان چڑھائیں تاکہ وہ اپنی معمولی اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور حماقتوں کی وجہ سے تناؤ،ندامت یا شرمندگی میں مبتلا ہونے کی بجائے ان پر ہنس کر،کچھ سیکھ کر،مثبت اثرات قبول کرتے ہوئے مستقبل میں آگے بڑھیں اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔

Daily Program

Livesteam thumbnail