بْر ا ئی پر ا چھائی کی جیت
پیارے بچو! یہ کہانی ایک چھوٹی سی لڑکی ا یوا کی ہے۔ جس نے دْعا کر کے اور پیار دکھا کر اپنے دشمن کی زندگی بدل دی۔ماما آج میں اسکول نہیں جاؤں گی۔ایوا نے اپنی ماں سے کہا،ماں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں بیٹی؟تمہیں تو سکول جانا بہت اچھا لگتا ہے۔ ہاں یہ تو ٹھیک ہے لڑکی نے جواب دیا۔مگر وہ میری دوست پر یسہ ہے نہ ْاس نے مجھے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ایواتھوڑا سا رْک کر پھر بولی، پر یسہ بہت بدتمیز ہے۔ ْاس نے تو ہم دوستوں میں پھوٹ ڈال دی ہے کچھ تو اْس کے ساتھ مل گئی ہیں اوراب دوسروں کو تنگ کرتی ہیں۔ماں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا پھر تو تمہیں چاہئے تھا کہ اپنی اْ ستا نی کو بتا تی وہ تو ضرور تمہاری مدد کریں گی۔ ایوا نے اْداس ہو کر کہا ہم تو کئی بار ایسا کر چکے ہیں لیکن اْستانی صاحبہ یہ کہتی ہیں کہ یقینا غلطی تمہاری ہی ہوگی،پتہ نہیں پر یسہ نے کیا جادو کر دیا ہے کہ وہ تو بس اْسی کے گْن گاتی رہتی ہیں۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ماما پھر بولی اس کا ایک ہی حل ہے۔ ایو انے بے تابی سے پوچھا، وہ کیا ہے؟ جلدی بتائیں۔ماما نے کہا تمہیں دْعا کرنی ہوگی اور اس کے علاوہ تمہیں سب کے ساتھ پیار سے پیش آنا ہوگا۔ کیونکہ یسوع میسح نے کہا ہے: ”لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دْعا کرو“۔(متی 5 با ب 44آ یت)یعنی دعا اور محبت بہت ضروری ہے۔ ماما اِن کے ساتھ پیار سے کیسے پیش آؤں؟ جب کہ وہ میرے ساتھ ْبرا سلوک کرتی ہیں۔ وہ تو ہمارے گروپ کی دشمن ہیں۔ اگر میں ایسا کروں گی تو میری سہیلیاں ناراض ہو جائیں گی۔ایوا نے تو اپنے دل کا حال اپنی ماں کے سامنے بیان کر د یا۔ماں نے بڑی شفقت سے بچی کو کہا: ہمارا پیارایسو ع سب کو حکم دیتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے بھی پیار کرو۔ تم بس یہ حکم مانو باقی سارا کام یسو ع مسیح پر چھوڑ دوں۔ ماں نے ایوا سے کہا، چلو ہم خدا سے ْدعا کرتے ہیں ایوا کے لیے یہ کام بڑا مشکل تھا۔ لیکن وہ ماں کے کہنے پر دْعا
کرنے لگی۔ اْس نے کہا”پیارے یسوع! تْو میری مشکل کو جانتا ہے تو میرے دل سے میری سہیلی کے لئے ساری نفرت کو نکال دے اور اس کی جگہ پیار بھر دے۔تاکہ میں تیر ی باتوں پر عمل کر سکوں۔آمین“
دْعا کے بعدا یوا کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ اگلی صبح جب وہ اسکول پہنچی تو سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ لیکن آدھی چھٹی کے وقت جب گھنٹی بجی،سب بچے کھیلنے کے لیے میدان کی طرف بھاگ گئے۔ لیکن پر یسہ کلاس میں ہی ٹھہری رہی۔اس نے جلدی سے ایک ْبری سی شکل والی عورت کی تصویر بنا کر اْ س کے اوپر ْاْستانی لکھ دیا اور پھر نظر بچا کر اسکول کے میدان میں چلی گئی۔ آدھی چھٹی کے بعد دوبارہ کلاس شروع ہوئی تو اْستانی نے پوچھا کہ یہ کس بچے کی حرکت ہے؟پر یسہ ٹیچر کے پاس جا کر کہنے لگی کہ اس نے ایوا کو یہ تصویر بناتے دیکھا تھا۔ٹیچر کے پوچھنے پر ایوانے جواب دیا کہ یہ کام اْس کا نہیں ہے۔ مگر اْستانی نے اْسکا یقین نہ کیا اوراْسے سزا دے دی، سزا یہ تھی کہ وہ چھٹی ہو نے کے آدھے گھنٹے بعد گھر جا سکتی ہے اس سے پہلے نہیں۔چھٹی کے بعد جب سارا اسکول خالی ہوگیاتو ٹیچر نے ایو ا کو بھی گھر جانے کی اجازت دے دی۔جیسے ہی ایوا سکول سے با ہر نکلی اْس نے پریسہ کود یکھا جو کہ ایک طرف کھڑی رو رہی تھی۔ پہلے وہ نظر انداز کرنے لگی لیکن پھر اسے وہ آیت یاد آ گئی کہ یسو ع مسیح کا حکم ہے کہ د شمن سے بھی پیار کرو اْس نے گہری سانس لی اور دل میں ْدعا کی کہ یسو ع تو میری مدد کرنا،تا کہ میں اس مغرورلڑکی سے بات کر سکوں۔ ایوا ہمت کرکے پر یسہ کے پاس گئی اور پوچھا کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو؟ پر یسہ نے روتے ہوئے کہا کہ اْ س کی سا یئکل کے پہیے کی ہوا نہیں ہے اورا ب گھر کیسے جاؤں گی؟ اْس نے بتایا کہ اْسکے والد نہایت سخت طبیعت کے انسان ہیں اور اگر مجھے گھر جا نے میں لیٹ ہو گئی تو میرے والد بہت ڈانٹیں گے۔ میں یہ بھی نہیں جا نتی کہ میری سا یئکل کی ہوا کِس نے نکا لی۔ ا یوانے ساری بات دھیان سے ْسنی پھر پر یسہ کی طرف ہمدردی سے دیکھا جو کہ وہ روتی جا رہی تھی۔ چند لمحے سوچنے کے بعد ا یو ا نے کہا تم میری سائیکل لے جاؤ اور میں تمہاری سائیکل لے کر چلی جاتی ہوں اس کو ٹھیک کروا دوں گی۔تم شام کو میرے گھر آنا اوراپنی سائیکل لے جانا۔ پر یسہ نے آنسو صاف کیے اور ایوا کی سائیکل لے کر چلی گئی۔ایوا نے سائیکل اپنے پاپا سے کہہ کر ٹھیک کرواد ی۔جب شام کے وقت پریسہ ا پنی سائیکل لینے آئی توایو ا نے اسے کھانا کھانے کے لئے روک لیا۔ کھانا کھانے سے فارغ ہوئے تو ایوا کے پاپا نے کہا چلو بھائی جلدی کروتمہیں تمہارے گھرچھوڑ آئیں رات ہو گئی ہے۔ تمہارے والدین تمہارا انتظار کر رہے ہو ں گے۔
پر یسہ یہ بات ْسن کر خوش ہوئی۔یہ تینوں گاڑی میں سوار ہوئے جلدہی پر یسہ کے گھر پہنچ گئے۔جب دروازے پر پہنچے تو پر یسہ کے والدین اپنی بیٹی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ دونوں نے ایوا کے والد کا شکریہ ادا کیا۔ پھرکچھ ہی دنوں میں دونوں گہری سہیلیاں بن گئیں اور ایک دن ایوا نے پریسہ کو سنڈے سکول میں آنے کی دعوت دی جسے اْس نے قبول کیا اور اچھی لڑکی بن گئی۔
پیارے بچو! دیکھا آپ نے دْعا اور پیا ر میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ اگر ایوا اپنی ماں کی با ت نہ مانتی اور پر یسہ بھی اپنی غلطی کبھی نہ ما نتی تو دونوں کا ہی نقصان ہوتااور نہ ہی پریسہ کبھی اچھی لڑکی بنتی۔دو نوں کے دل میں نفرت ر ہتی۔ کبھی بھی کسی کا بھلا نہ ہوتا،نہ ہی وہ دونوں اچھی سہلیاں بن پاتیں۔ آج کے دور میں ہمیں بھی دْعا کرنے کی ضرورت ہے اور چاہیے کہ ہم بھی یسوع کے حکم پر عمل کریں اور اس کی بات کو مانیں۔ہمارے دشمن کتنے ہی بْرے کیوں نہ ہوں ہمارے لئے کتنا ہی بْرا کیوں نہ چاہیں لیکن ہم پھر بھی ان کے لیے ْدعا کریں اور ان سے ایسا پیار کریں جیسا ہمارے یسوع نے ہم سے کیا ہے۔